واسطہ یوں رہا سرابوں سے آنکھ نکلی نہیں عذابوں سے میں نے انسان سے رابطہ رکھا میں نے سیکھا نہیں نصابوں سے ویسے نصاب اور کتاب میں بہت فرق ہے کہ خوں جلایا ہے رات بھر میں نے۔ لفظ بولے ہیں تب کتابوں سے۔ اصل میں میرے سامنے ایک کتاب ہے۔ پوٹھوہار خطہ دلربا۔ یہ شاہد صدیقی ہی کا کارطلسم ہے کہ پوٹھوہار کو دلربائی دے کر شاعرانہ اور ساحرانہ بنا دیا۔ یہ کیسی کتاب ہے کہ آپ پڑھتے چلے جائیں تو آپ کوفراز کا شعر یاد آ جائے کو ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی۔ یہ خزانے تجھے ممکن ہیں خرابوں میں ملیں۔ واقعتاً میں تو پڑھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ تجھ کو کچھ تو بنا دیا ہے۔ ہم نے تھوڑا سا دھیان دے کر۔ وہی جو کہتے ہیں کہ ارسطو کو بتانا نہیں پڑتا کہ وہ ارسطو ہے۔ سقراط بھی باتوں سے پہچانا جاتا تھا۔ شاہد صدیقی بھی اپنی تحریروں میں باقاعدہ نظر آتے ہیں۔ ایک سلیقہ ایک قرینہ اور ایک شائستگی۔ ان کی تحریریں تاریخ کے اوراق پر نقوش چھوڑتی ہیں۔ پوٹھوہار سے مجھ جیسے کتنے آشنا نہیں تھے وہ تو کمال کرتے ہیں کہ متعارف کرواتے ہوئے فیض جیسی ہنرکاری کرتے ہیں کہ’’ وہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا‘‘۔ اس علاقے کے کتنے راز افشا ہوتے ہیں‘ کیسی کیسی شخصیات ہم جن سے متعارف ہوتے ہیں۔ بس انہوں نے دیار یار کی خاک خوب چھانی ہے اور موتی رولے ہیں۔ واقعتاً پوٹھوہار ایک طلسم کدہ ہے‘ راولپنڈی جس کا شہر دلربا ہے۔ یہ شیخ رشید والے پنڈی سے یکسر مختلف ہیں۔ شاہد صدیقی اس سخن گسترانہ بات پر مجھے معاف کردیں۔ آپ ان تحریروں کو کالم‘ کہانیاں یا کچھ بھی کہہ لیں۔ اس میں جہاں ماں جی کا خاکہ یا والد محترم کے بارے میں یا بھائی کے بارے شاندار اور جاندار چیزیں ہیں وہاں تاریخی مقامات کا بیانات پورے جذبات کے ساتھ ہے۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے زبردست مواد ہے اور ادب و شاعری کا شغف رکھنے والوں کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ کئی ایسی شخصیات بھی ہیں جنہیں میں مل بھی چکا ہوں اور بعد تعلق خاطر بھی ان کے ساتھ رہا۔ سجاد شیخ‘ آفتاب اقبال شمیم‘ فتح محمد ملک‘ رشید احمد‘ یوسف حسن اور شاہد حمید۔ ظاہر ہے میرے لیے یہ بہت ہی دلچسپی کی بات ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے ان باکمال لوگوں کو تاریخ بنتے دیکھ لیا۔ میاں محمد کھڑی شریف والے تو میرے فیورٹ ہیں اور ایک جدید صوفی شاعر۔ کمال کا تذکرہ شاہد صدیقی نے کیا ہے۔ پھر گلزار کا اور دینے کا۔ باقی صدیقی بھی تو ہیں: داغ دل ہم کو یاد آنے لگے لوگ اپنے دیے جانے لگے ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے اس دستاویزی کتاب پر تو کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ باقی صدیقی کے کئی خوبصورت اشعار درج ہیں۔ تم زمانے کی راہ سے آئے، ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا۔ ایک دیوا رکی دوری ہے قفس۔ توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے۔ کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری۔ اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو۔ یہاں سے شاہد صدیقی کا گہرا شعری ذوق نظر آتا ہے۔ وہ خود بھی موزوں طبع ہیں کہ آخر عرفان صدیقی کے چھوٹے بھائی ہے۔ بادیش بخیر جن دنوں میں عرفان صدیقی کی کتب اپنے پبلشرز سے چھپوا رہا تھا ان دنوں شاہد صدیقی پہلی مرتبہ ان کے ساتھ میرے آفس آئے۔ قدر مشترک ہے کہ وہ بھی انگریزی کے استاد۔ آنکھوں میں دانش اور ذہانت کی چمک اور ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ۔ تہذیب اور شائستگی سربسر۔ شاہد صدیقی کی تحریروں پر جید ادبا کی آرا ہیں۔ بہتر ہوگا کہ میں مشت نمونہاز خروارے کے طور پر مقبول فکشن کے بادستہ شکیل عادل زادہ کے دیباچہ سے ایک اقتباس لکھ دوں۔ شاہد صدیقی کی تحریر میں متن و موضوع اور اسلوب کی خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ قابل رشک حد تک خراماں خراماں سا لہجہ سادہ پرکار‘ سنجیدہ بھی اور شگفتہ بھی‘ اس قدر مزومعنی سے لبریز۔ اس کا اثر و تاثر ہی کچھ جدا اور سوا ہے۔ یہ دستاویزی حیثیت رکھتا ہے۔ پوٹھوہار پر ایسی کوئی مبسوط اور دل آویز کتاب نظروں سے نہیں گزری۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اس حقیقت آمیز‘ فکر انگیز تحریروں کے صورت گر سخن طراز سخن پرداز ڈاکٹر شاہد صدیقی ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ان کی تحریریں ذہن‘ دل میں نقش رہتی ہیں۔ ایک روز میں نے اپنے بیٹے عزیر بن سعد کو بال کٹوانے کے لیے کہا کہ سر پر بھوت بنگلہ بنا رکھا تھا۔ میری بیگم خاموش رہیں۔ ایک جگہ شاہد صدیقی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے والد نے جب انہیں لمبے بال کٹوانے کا حکم دیا تو جواب سے پہلے میری والدہ کہنے لگیں۔ مجھے شاہد کے لمبے بال پسند ہیں۔ یعنی ماں نے فوراً اپنے بیٹے کی خواہش کو اپنی خواہش بنا لیا۔ ان کی تحریروں میں نوع انسان کے لیے محبت چھلکتی ہے اور وہ ہر سطح پر ایک تعلق استوار رکھتے ہیں۔ وہی جو اظہار شاہین نے کہا تھا: تم کسی راستے سے آجانا میرے چاروں طرف محبت ہے شاہد صدیقی وائس چانسلر بھی رہے۔ یہ خانوادہ بہت پڑھا لکھا ہے کہ ہمہ آفتاب است۔ مجھے ان کی ذات میں شرافت و انکساری اس سطح پر نظر آتی ہے کہ محاورہ درست بیٹھتا ہے کہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بہرحال اس کتاب میں بوقلمونی ہے یعنی کئی رنگ ہیں۔ نورالہٰدیٰ شاہ نے لکھا ہے کہ شاہد صدیقی پر ایک ایسے داستان گو کا گمان ہوتا ہے جو تاریخ کے سرائے خانے کو ہر دم آباد رکھتا ہے۔