حکومت پاکستان کی طرف سے اپنے وطن واپسی کے لئے افغان مہاجرین کو ایک مہینے کی مہلت نے افغانستان میں سراسیمگی پیدا کر دی ہے، اس لئے کہ اس کے نتیجہ میں افغانستان کی معیشت کی نام نہاد مضبوطی بے نقاب ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے اور افغان حکومت اپنے پرانے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو بلیک میل کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔پاکستان میں قومی مفادات سے نابلد لوگ انسانی ہمدردی کے بہانے حکومت پاکستان پر زور دے رہے ہیں کہ ایسا نہ کیا جائے۔ ایسے لوگ جاہل مطلق ہیں یا انہیں قومی مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور محض سیاسی ‘ نسلی و لسانی وجوہات یا کسی ذاتی فائدے کے چکر میں وہ پاکستان کے مستقبل کو دائو پر لگا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کب تک آپ ایک دوسرے ملک جس نے ہمیشہ آپ کو نقصان پہنچایا ہے کی قیمت پر اپنے آپ کو تباہی کے راستے پر گامزن رکھیں گے؟ نام نہاد تزویراتی گہرائی کا پتہ تو آپ افغان طالبان کی حکومت کی سرپرستی میں پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصہ سے بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات سے لگا ہی سکتے ہیں۔ پچھلے نو مہینوں میں گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں اٹھانوے فیصد اضافہ ہوا ہے پاکستان کی حکومت کے مسلسل احتجاج کے باوجود کابل ٹس سے مس نہیں ہو رہا ۔یہ ضرور چاہ رہا ہے کہ پاکستان افغانستان سے کالی معیشت کے تمام راستے کھلے رکھے تاکہ اس کی معیشت پھلتی پھولتی رہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان نے تباہ ہوتی ہوئی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے بہت درست تجزیہ کر کے نہایت مناسب قدم اٹھایا ہے۔ اس چیز کی کیا تُک ہے کہ آپ کسی دوسرے کو فائدہ دینے کے لئے اپنی معیشت کو اس حد تک تباہ کر لیں کہ دنیا آپ کو بھکاری اور ناکام ریاست سمجھنے لگ جائے۔ کوئی برادر اسلامی ملک بھی آپ سے سیدھے منہ بات کرنے کے لئے تیار نہ ہو اور دنیا کا کوئی ادارہ آپ کی مدد کو آگے آنے کو تیار نہ ہو اور آپ ہیں کہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھ بھی ہمسائے کو دودھ پلائے جا رہے ہیں۔اس حوالے سے حکومت پاکستان کے تین فیصلے نہایت قابل ستائش ہیں کہ افغان مہاجرین سے فوراً چھٹکارا حاصل کیا جائے افغانستان سے پاکستان میں اشیاء کی سمگلنگ کو روکا جائے اور پاکستان سے افغانستان کو ڈالر کی سمگلنگ کا سلسلہ آہنی ہاتھوں سے بند کیا جائے۔جہاں تک افغان مہاجرین کا تعلق ہے ان کا مسئلہ جس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوا وہ تو 1988ء کے جنیوا معاہدے کے نتیجے میں ختم ہو گئی اس کے بعد افغانی خود خانہ جنگی کا شکار ہو گئے تو پاکستان نے اس لڑائی میں پشتونوں کی حمایت کو بیڑا اٹھاتے ہوئے افغان مہاجرین کی میزبانی کو جاری رکھا جن کی تعداد روس کے ساتھ جنگ کے دوران 40لاکھ تھی تو اس میں اب تک کتنا اضافہ ہو گیا ہو گا، اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد تو 14لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن ان کے علاوہ دو طرح کے اور مہاجرین بھی ہیں وہ لوگ جنہوں نے جعلی دستاویزات حاصل کر لی ہوئی ہیں یا وہ جو کسی بھی طرح کے کاغذ کے بغیر پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ان دونوں طرح کے لوگوں کی تعداد پاکستان کے پاس کوئی اعداد و شمار ہی نہیں ہیں۔ یہ تمام کے تمام لوگ افغان پشتون ہیں۔ انہیں محمود خاں چکزئی اور اسفند یار ولی خان سے لے کر عمران خان جیسے راہنمائوں کی حمایت حاصل ہے۔ اب وہ پورے پاکستان میں تمام ہائی ویز پر ہوٹلوں کی شکل میں سڑک کے اوپر چلنے والے بڑے بڑے بار برداری کے ٹرکوں کی شکل میں ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہر چھوٹی بڑی مارکیٹ اور بستی سے لے کر پاکستان کے تمام حصوں کے تمام دیہات تک اپنا نیٹ ورک مضبوط کر چکے ہیں۔ ان کی اپنی بڑی بڑی مارکیٹس ہیں۔ ہرطرح کا مال وہ فروخت کرتے ہیں اور پاکستانی دکانداروں کو مال سپلائی کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی غریب سے غریب اور پوش سے پوش علاقہ میں چلے جائیں ہر جگہ افغانی آپ کو ملیں گے یہاں تک کہ پوش علاقے میں ایک سروے کے مطابق 40فیصد گھر افغانیوں کے ہیں یہ سلسلہ گلگت سے مظفر آباد اور اسلام آباد سے لاہور و کراچی تک اسی طرح پھیلا ہوا ہے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ ہر گائوں میں ایکڑ دو ایکڑ جگہ لے کر انہوں نے اپنے ڈیرے بنا لئے ہوئے ہیں، جہاں سے وہ اپنی کالی معیشت کا دھندا چلاتے ہیں حتیٰ کہ آپ بڑے بڑے سیاستدانوں اور کاروباریوں کے ڈرائیوروں اور گن مینوں سے لے کر گلی محلے میں عام مزدوری کرنے والوں تک کا سروے کر لیں آپ کو ہر جگہ افغانیوں ہی کا راج نظر آئے گا۔ جہاں تک افغانستان سے اشیاء سمگلنگ کا تعلق ہے تو ہم بتا چکے اور ہر جگہ آپ کو نظر بھی آئے گا کہ اب تو سرعام انہوں نے اپنی باڑہ مارکیٹیں اور ویئر ہائوس بنا کر ساری معیشت کو اپنے شکنجے میں لے لیا ہے علاوہ ازیں اغوا برائے تاوان‘ ڈکیتیاں ‘ منشیات و اسلحہ کا کاروبار اور گاڑیوں کی چوری جیسے دھندے بھی انہی کے قبضے میں ہیں ۔ ایف بی آر اور نادرا جیسے سرکاری دفاتر میں بدعنوان رشوت خور قوم کے غداروں کی وجہ سے انہیں ہر طرح کی حمایت حاصل ہے۔ نوٹوں کی دھتیاں دیکھ کر تمام تھانے اور وردیوں والے بھی ان کے آگے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ ابھی بات ڈالر کی سمگلنگ کی تو آپ نے دیکھ لیا کہ افغانستان کو اس کی سمگلنگ روکنے کے نتیجے میں روپہ کس قدر آہستہ آہستہ طاقت پکڑ رہا ہے اور ڈالر گرتا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کا بجا کہ ٹیکس اکٹھا ہونا چاہیے۔ برآمدات اور باہر سے آنے والی رقوم میں اضافہ ہونا چاہیے ۔ ہمیں اپنی معیشت سے بدعنوانی ختم کرنی چاہیے۔ یہ سب کچھ ضروری ہے لیکن ان سب سے ضروری وہ ہے جو اب افغانستان کے سلسلہ میں حکومت کر رہی ہے۔ صرف افغان اور ایران بارڈر کو بھی کنٹرول کر لیا جائے تو پاکستانی معیشت کے زوال کو روکا جا سکتا ہے۔