آزادکشمیر کے طول وعرض میں ایک طوفان برپاہے۔ عوام غصے میں نہیں ہیں بلکہ انتقام پر تل چکے ہیں اور حکمران ہیں کہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔احتجاج،دھرنے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔گزشتہ چند مہینوں کے دوران آزاد جموں و کشمیر کے بجلی کے بلوں،آٹے کی قلت اوراشرافیہ کی غیر معمولی مراعات کے خلاف شہریوں کے بے مثل احتحاجی نے وزیراعظم چودھری انوار الحق کی کل جماعتی حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ بوکھلاہٹ کا شکار حکومت بجائے عوامی مطالبات کے آگے سرجھکائے اس نے احتجاجی تحریک کو طاقت کے استعمال سے کچلنے کی کوشش کی۔ پولیس کی مدد سے احتجاجی کیمپوں کو اکھاڑاگیا۔ درجنوں ٹریڈ یونین رہنماؤں، سول سوسائٹی کے کارکنوں اورعوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کو گرفتار کیا گیا۔ مقامی پریس کے مطابق احتجاجی تحریک کے سرکردہ کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اوربعض مقامات پر ان کے اہل خانہ کو بھی ہراساں کیا گیا۔ ردعمل میں پانچ اکتوبر کو ایک اور تاریخ ساز ہڑتال کر کے عوام نے حکومت پرعدم اعتماد کا اظہار کیا۔ اس ہڑتال کی حمایت میں بار ایسوسی ایشنز اور طلبہ تنظمیوں کے کارکنوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے اکتوبر میں کئی ہڑتالوں، ایجی ٹیشنز اور دھرنوں کا اعلان کیا تاکہ حکومت کو عوامی مطالبات کے سامنے سرجھکانے پر مجبور کیا جاسکے۔ حکومت نے بے قابو ہوتے ہوئے احتجاج کے سامنے بندھ باندھنے کی خاطر ایک سولہ رکنی وزراء کی کمیٹی کا اعلان کیا۔ یہ ایسے وزراء ہیں جو گزشتہ چھ ماہ کی کوششوں کے باوجود اپنی اپنی وزارت کا نوٹیفیکشن نہ کراسکے۔ گزشتہ چھ ماہ سے جاری دھرنوں اور مظاہروں کے پس منطر میں زیادہ تر سرگرم نوجوانوں کا ہاتھ ہے۔ جس کا تعلق مختلف سیاسی تنظیموں اور نظریاتی تحریکیوں سے ہے۔ یہ نوجوان رضا کارعوامی مطالبات کے نکات اور احتجاج کے نظام الاوقات کے بارے میں عوام کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے آگاہ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نون لیگ، پی پی پی یا تحریک انصاف کی لیڈرشپ کی جھوٹی سچی تعریفوں کے بجائے اب مفاد عامہ کے مسائل پر سنجیدہ گفتگو ہوتی ہے۔ پانچ اگست، اکتیس ستمبر اور پانچ اکتوبر نیلم ویلی سے لے کر بھمبر تک تاریخی ہڑتالیں ہوئیں۔ ایسی ہڑتالیں جن کی آزادکشمیر کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بعض مقامات پرلوگوں نے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ بہت سے لوگوں نے احتجاجی دھرنا کیمپوں میں جاکر بجلی کے بلوں کو آگ لگائی۔ مظفرآباد میں لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنے بجلی کے بل دریائے جہلم میں پھینک دیئے۔ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے کچھ عوامی مطالبات جیسے کہ آٹے کی سبسڈی کو بحال کرنے اور مقررہ تاریخ کے بعد بجلی کے بل چارجز کو معاف کرنے کا اعلان بھی کیا تاہم یہ اقدامات عوامی غصے کو کم نہ کرسکے۔ بنیادی مسئلہ آزادکشمیر کے صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی ہے۔ منگلا ڈیم اور نیلم جہلم جیسے بڑے منصوبوں سمیت دیگر ہائیڈل پاورمنصوبوں سے پنتیس سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے باوجود آزادکشمیر اکثر اندھیروں میں ڈبا رہتاہے۔ حالانکہ کشمیر کی کل بجلی کی کھپت 350 میگاواٹ ہے۔ آزادکشمیر میں قائم بجلی کے منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی پہلے نیشنل گرڈ آف پاکستان میں پہنچائی جاتی ہے اور پھر 2.59 روپے فی یونٹ کے حساب سے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت سمیت مختلف تقسیم کار کمپنیوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم مقامی حکومت شہریوں کو یہ بجلی 20 سے 60 روپے فی یونٹ کے نرخوں پر فراہم کرتی ہے۔ اس طرح عام صارفین پر بے پناہ مالی بوجھ پڑجاتاہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی ترجیحی بنیادوں پر آزادکشمیر کو بجلی فرام کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ نیشنل گرڈ کو بجلی فراہم کرنے سے پہلے مقامی شہریوں کو بجلی فراہم کی جائے۔ اپنی دلیل کو تقویت دینے کے لیے سول سوسائٹی کے کچھ کارکن آئین پاکستان کے آرٹیکل 161، شق 2 کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ "وفاقی حکومت کی طرف سے کمایا جانے والا خالص منافع، یا وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ یا زیر انتظام کسی ہائیڈرو الیکٹرک سٹیشن پر بجلی کی بلک جنریشن سے حاصل ہونے والا خالص منافع اس صوبے کو ادا کیا جائے گا، جس میں ہائیڈرو الیکٹرک سٹیشن واقع ہے۔" یہ آئینی شق مقامی لوگوں کے قدرتی وسائل کے استعمال کے بنیادی حق کو تسلیم کرتی ہے۔ اس تناظر میں عوامی ایکشن کمیٹی نے واپڈا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد کشمیر کے اندر قائم ہائیڈل پراجیکٹس سے پیداواری شرح پر بجلی فراہم کرے۔ اس کا مقصد آزاد کشمیر کو لوڈ شیڈنگ سے پاک زون قرار دینا ہے۔ ان مطالبات کے علاوہ، مظفرآباد اور میرپور کے شہریوں کو واپڈا اور آزاد کشمیر کی حکومت دونوں سے متعدد شکایات ہیں۔ نیلم ، جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ، ایک رن آف دی ریور ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ ہے۔ بدقسمتی سے مظفرآباد پر اس کے منفی ماحولیاتی اثرات کے تدارک کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس غفلت یا بدنیتی کے نتیجے میں دیہاتیوں کی ایک بڑی تعداد کو میٹھے پانی کے خشک ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ علاوہ ازیں مظفرآباد کے درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ وعدوں اور معاہدوں کے باوجود میرپور شہر کو اسلام گڑھ سے ملانے والے، منگلا ڈیم کے ریزروائر چینل پر تعمیر ہونے والا تقریباً 5 کلومیٹر طویل راٹھوہ ہریام پل نامکمل ہے۔ میرپور شہر منگلا ڈیم جھیل کے کنارے آباد ہونے کے باوجود پینے اور آبپاشی کے پانی کے لیے ترس رہاہے۔ ان غیر حل شدہ مسائل نے مقامی آبادی کے عدم اطمینان اور شکایات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ غصہ نکالنے کا موقع اب عوام کو ملا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تحریک کی قیادت سیاستدان یا کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ عام شہری کر رہے ہیں۔ زیادہ تر منتخب نمائندوں نے عوامی غم و غصے سے خود کو دور رکھا ہے۔مبادہ مقتدر قوتوں کی نگاہ میں ان کی فائل پر کاٹا نہ لگ جائے۔ وہ عوام کی شکایات کو زبان دینے سے گریز کرتے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ سے عوام سڑکوں پر ہیں اور لیڈر اپنی کمین گاؤں میں چھپے مناسب وقت انتظار کررہے ہیں تاکہ لوگوں کی قربانیاں کا سودا لگا سکیں۔ اور اپنے لیے مزید مفادات سمیٹ سکیں۔ اس خلا کو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور پرجوش رہنماؤں نے پورا کیا ہے۔ مزید برآں، تقریباً 3000 منتخب لوکل گورنمنٹ کونسلرز احتجاجی تحریک کو ضروری اخلاقی اور سیاسی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میں پی ٹی آئی کے مٹھی بھر اراکین کو چھوڑ کر مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں، بشمول پیپلز پارٹی، پی ایم ایل، اور پی ٹی آئی کے منحرفین ارکان نے خود کو وزیر اعظم انوار الحق کی غیر مقبول حکومت کی جھولی میں ڈال رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو چلتا کرکے جس طرح پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو ٹور یہ حکومت بنائی گئی اس نے سیاست کو بے قار اور سیاستدانوں کے اخلاقی وجود کو پاش پاش کردیا۔ پہلی بار آزاد کشمیر کے عوام موجودہ حکومت اور بیوروکریسی کے بحری بیڑے کی افادیت پر سوال اٹھارہے ہیں۔ مظاہرین کا ایک بڑامطالبہ عوامی سرکاری اخراجات میں نمایاں کمی اور ترقیاتی بجٹ میں اضافے کا ہے۔ وزراء اور سرکاری اہلکاروں کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ آزادکشمیر نہیں بلکہ سلطنت برونائی ہے۔حکومت کے بجٹ کا تقریباً 85 فیصد سرکاری اخراجات کے لیے وقف ہے، جب کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ریاست گیر احتجاج شروع دن سے ہی پرامن رہا ہے۔ تاہم وزیراعظم چودھری انوارالحق کے طرز عمل سے یہ خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ اگر گرفتاریاں کا سلسلہ جاری رہا تو یہ خطہ کسی بڑے تصادم کی نذر ہوجائے گا۔ اطلاعات ہیں کہ آزاد کشمیر کی حکومت نے احتجاج کو دبانے کے لیے وفاقی حکومت سے رینجرز اور ایف سی کے اضافی دستوں کی درخواست کی ہے۔ وفاقی فورسز کو لوگوں سے لڑانے کا خیال تباہ کن ہے۔ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے گورننس کو بہتر بنانے، سرکاری ملازمین کی تعداد کم کرنے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں نمایاں کمی جیسے اقدامات سے موجودہ احتجاج کو ٹھنڈا کیاجاسکتاہے۔ مزید برآں، مقامی سطح پر ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آخر کب تک آزادکشمیر کے نوجوان یونان کے سمندر میں کشتیاں الٹ سے جاں بحق ہوتے رہیں گے۔