دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بھارت میں قومی سلامتی یا خارجہ پالیسیاں ترتیب دیتے وقت وزیراعظم اور اس کے دفتر میں قومی سلامتی مشیر کے علاوہ وزراء خارجہ، داخلہ اور دفاع کا عمل دخل رہتا ہے۔مگر کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ ہی حرف آخر وزیر اعظم کا دفتر ہی رہتا آیا ہے، حتیٰ کہ لال کشن ایڈوانی یا پی چدمبرم جیسے طاقتور اور قد آور وزراء داخلہ کی موجودگی میں بھی ان دو امور کو وزیر اعظم براہ راست ہی ڈیل کرتے آئے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہوگی،کہ وزیر اعظم کے پاس چونکہ مکمل خارجی اور داخلی خفیہ اطلاعات اور اسکے علاوہ سفارتی منظر نامہ کی براہ راست جانکاری ہوتی ہے، اس لئے وہ مسائل کو مجموعی نقطہ نظر سے دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔ مگر 2019 کے بعد خاص طور پر ان ایشوز کو ایک مجلس ثلاثہ ،جس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر شامل ہیں، کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی خود ان معاملات میں مداخلت کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ گو کہ کاغذی طور پر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کابینہ میں مودی کے بعد دوسری پوزیشن پر ہیں، مگر حساس معاملوں میں انکوکوئی نہیں پوچھتا ہے۔ جون2018 کو جب راج ناتھ سنگھ جموں و کشمیر کی اس وقت کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ہاتھ مضبوط کرنے پر زور دے رہے تھے، امیت شاہ جو اس وقت حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے صد ر تھے ، کی رہائش گاہ کے باہر پارٹی جنرل سیکرٹری رام مادھو صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ ان کی پارٹی کے محبوبہ مفتی حکومت سے حمایت واپس لیکر گورنر راج لاگو کرنے کی سفارش کی ہے۔ سنگھ کو یہ معلومات ٹی وی چینل سے موصول ہورہی تھیں۔ اس دوران نجی گفتگو میں کئی بار انہوں نے اشار ے دیے کہ کشمیر اور شمال مشرقی صوبوں کیلئے پالیسی ترتیب دیتے ہوئے انکی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ ویسے تو قومی سلامتی پالیسیوں میں ایک طرح کا تسلسل ہوتا ہے اور وہ تاریخ کے ساتھ مربوط ہوتی ہیں، مگر ان اداروں کے سربراہان کے رویہ اور ان کی نظریاتی وابستگی بھی ایک بڑا رول ادا کرتی ہے۔ جے شنکر نے پاکستانی ہم منصب بلاول زرداری کے ساتھ جس طرح کا برتائو ساحلی صوبہ گوا میں منعقدٗ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن یعنی ایس سی اوکے اجلاس کے دران کیا، وہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کی ڈاکٹرین سے بالکل مطابقت رکھتا ہے، جس کو فی الحال سرکاری پالیسی کی حیثیت حاصل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ دسمبر 2016کو پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کو بھی پنجاب کے سرحدی شہر امرتسر میں اسی کرب سے گذرنا پڑا تھا۔ سرتاج عزیز افغانستان سے متعلق ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے کیلئے بھارت آئے تھے۔ جس طرح سے اس کانفرنس کے دران میزبان بھارت اور افغانستان کے وفد نے ان کے تئیں سرد مہری دکھائی اور ایک طرح سے ان کے ساتھ بن بلائے مہمان جیسا سلوک روا رکھا ، ان کی حالت پر رحم آرہا تھا۔ میں اس کانفرنس کو کور کر رہا تھا اور ہمیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ ان کو نظر انداز کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وزرات خارجہ کے اعلیٰ افسران نے اسی طرح کا پیغام گو ا میں ایس سی او کانفرنس کور کرنے والے صحافیوں کو بھی دیا تھا۔ دوول ڈاکٹرین کا اہم ترین جز کسی بھی دبائوکو خاطر میں لائے بغیر کشمیرپر فورسز کے ذریعے territorial dominance حاصل کرواکے ، پاکستان اور کشمیری عوام کا مائینڈ سیٹ تبدیل کروانا ہے۔جس سے ایک طرف پاکستان تائب ہوجائے، اور دوسری طرف کشمیر یو ں پر یہ واضح ہو، کہ بھارت کے بغیر ان کا مستقبل کہیں اور نہیں ہے۔اس کو حاصل کرنے کیلئے پاکستان کی کمزور رگوں یعنی بلوچستان اور گلگت۔بلتستان پر ہاتھ ڈال کر، اسکو کشمیر سے باز رکھنا ہے۔ ان کی ڈاکٹرین کا اہم جز مین اسٹریم کشمیر ی پارٹیوں نیشنل کانفرنس اورپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سے متعلق بھی ہے۔ اس کے مطابق یہ پارٹیاں بھی حق خود اختیاری ، خود مختاری، اور سیلف رول جیسے نعروں کے ذریعے کشمیر ی ذہنوں کا آلودہ کرتی ہیں، اور حریت پسند ی کو آکسیجن فراہم کرتی رہتی ہیں۔ڈاکٹرین کے مطابق ان پارٹیوں کو بھی یہ احساس دلانا ہے، کہ وہ نئی دہلی کو بلیک میل کرنے او ر سیاسی حل پیش کرکے اب او ر سیاست نہیں کرسکتی ہیں اور ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح تعمیر اور ترقی کے ایشوکولے کر ہی اب وہ کشمیر میں حکومت کر سکتی ہیں۔دوول ڈاکٹرین کے مطابق کشمیریوں اور پاکستان کو باور کرانے کا موقع آگیا ہے کہ انکا مطالبہ اور انکی منزل ناقابل حصول ہے۔ان کے مطابق سابق حکومتوں نے کشمیری راہنمائوں کی چاہے وہ حریت پسند ہوں یا مین اسٹریم ، ابھی تک صرف ناز برداری کی ہے ۔ ان کو حقیقت کا ادراک نہیں کروایا ہے۔ اپنے کیریرکے دوران پنجاب میں سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی 'را‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پرکئی سال کام کرنے کی وجہ سے دوول کا ہدف ہمیشہ سے ہی پاکستان کو نیچا دکھانا رہا ہے۔بھارت کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے اپنی کتاب A Vulture of Feast میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی، مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹیلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت دوول بھی براجمان تھے۔ یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ دوول ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر پاکستان کے شہر کراچی میں ایک آپریشن پرکام کر رہے تھے ۔بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم مودی کے پاس دوول اگرکمرے میں موجود ہوں تو کتنی ہی اشد ضرورت کیوں نہ ہو، حکم ہے کہ کوئی بھی کمرے میں نہیں آسکتا اور نہ ہی فون کے ذریعے وزیر اعظم کا پرائیویٹ سیکرٹری ان کو کسی بھی طرح کی یاد دہانی کراسکتا ہے۔ اس ڈاکٹرئن کی اگلی کوشش مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مذاکرات کے عمل سے خارج کروانے کی ہے۔ افواہیں گشت کررہی ہیں کہ جس طرح 1973ء کے شملہ سمجھوتہ میں آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب اس مسئلہ کو دوطرفہ مذاکرات کے ایجنڈہ سے بھی خارج کروانے کی ہے، تاکہ نریندر مودی بھی اپنا نام تاریخ میں امرکرواسکیں۔ اس مثلث یا مجلس ثلاثہ کے ایک اور رکن وزیر خارجہ جے شنکر ہیں۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے چہیتے آفیسر تھے۔وہ ان کو 2013میں سیکرٹری خارجہ بنانا چاہتے تھے۔ بھارتی فارن آفس میں امریکہ ڈیسک کے سربراہ کے ہوتے ہوئے انہوں نے بھارت امریکہ جوہری معاہدہ کو حتمی شکل دینے اور اسکو امریکی کانگریس سے منظوری دلوانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔مگر ان کی فارن سیکرٹری کی متوقع تقرری کی کانگریس پارٹی کے اندر سے سخت مخالفت ہوئی، جس کی وجہ سے وزیر اعظم سنگھ کو سرخم کرکے سجاتا سنگھ کو خارجہ سیکرٹری بنانا پڑا۔(جاری ہے)