وزیراعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ " عمران خان بار بار حاضر سروس افراد پر من گھڑت الزامات لگا رہے ہیں۔ پرویز الہٰی کے دور میں عمران خان نے من گھڑت ثبوت بنانے کی بھی کوشش کی"۔ جب کہ میں اور میرے ممدوحین صرف" گھڑت " ثبوت بناتے ہیں۔کبھی کبھی تن گھڑت ثبوت بھی بنا لیے جاتے ہیں مگر من گھڑت ثبوت کبھی نہیں بنائے۔البتہ جہاں تک الزامات لگانے کا تعلق ہے اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔لیکن میں اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں جب تک سانس ہے مطلب جب تک حکومت ہمارے ہاتھ میں ہے تب تک تو الزامات لگانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " عمران خان ایک کے بعد ایک موقف تبدیل کرتے ہیں،"۔ جب کہ ہم ہر ہفتے بعد اپنا موقف نہیں تبدیل کریں گے۔بلکہ اس وقت تک موقف تبدیل نہیں کریں گے جب تک الیکشن میں عوام ہمارا دھڑن تختہ نہیں کر دیتے۔ اسی لیے حیلے بہانوں اور عدلیہ سے جان بوجھ کر سینگ اڑا کر الیکشن کے انعقاد کے معاملے پر پوری طرح مٹی ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔رام بھلی کرے گا۔انہوں نے کہا " بغیر ثبوت کسی پر قتل کا الزام لگانا سنگین معاملہ ہے " البتہ بہتر یہی ہے کہ از خود قتل ہو لیا جائے اور انشا اللہ خان انشا کا کہا بھی سچ ثابت ہو جائے یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز ِ عید قرباں وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا اس سلسلے میں انہیں محبی ڈار صاحب کا کہا اور فیصلہ یاد کروانا یاد نہ رہا کہ کل ہی " ای سی سی نے دل کے مریضوں کیلئے چار نئے کارڈیک اسٹنٹس کی زیادہ سے زیادہ قیمت مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔ " وہ اس کی بھی کوئی توجیہ کر سکتے تھے کہ قتل بے شک نہ ہوں موت کا انتظام کیا جا رہا ہے۔حالانکہ انصاف کا تقاضا اور دل کے مریضوں کا معاملہ تھا یہ سٹنٹس تو زیادہ سے زیادہ سستے کیے جانے چاہیے تھے مگر ہم نے موت کا سامان مہیا کرنا اپنا فرض اولین سمجھا ہوا ہے۔ اس میں دامے درمے سخنے اپنا حصہ ڈالا بھی ہے اور آئندہ بھی اپنی مساعی جلیلہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔اصل میں ہم نے اپنا محاذ سنبھال ہوا ہے۔ محترم ڈار صاحب اپنے کام میں ماہر ہیں اور ہمارا اپنا میدان ہے۔مگر یقین کریں کوششیں سب کر رہے ہیں ۔آگے اللہ کا مرضی ہے ۔ ویسے بھی موت کسی طریقہ سے بھی آئے ہم قصور والے کہتے ہیں" اوہدی آئی ہوئی سی " یہ ہم موت کے بارے میں ہی کہتے ہیں۔ الیکشن میں بے موت مرنے کو کچھ اور کہتے ہیں۔بے شک ہماری حلیف پیپلز پارٹی کے چوہدری منظور احمد سے پوچھ لیں۔آخر وہ بھی قصور ہی سے ہیں البتہ انہوں نے محسن نقوی کا مشیر نہ لگ کر اپنا مکّو خود ہی ٹھپا ہے۔ اگرچہ وہ پیپلز پارٹی کے آدمی ہیں اور آج کل ہم دونوں پارٹیاں اکٹھی بھی ہیں لہذا اپنا جینا مرنا بھی اکٹھا ہے۔اکٹھے جینے کی کوئی گارنٹی نہیں البتہ الیکشن میں اکٹھے مرنے کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ ستم بالائے ستم عمران خان نے قصور سے دو سیٹوں سے مسز مزمل مسعود بھٹی اور دوسری سے مس ناصرہ میو کو ٹکٹ دے کر ہم دونوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ دونوں خواتین میرے حلقے سے کھڑی نہیں ہوئیں۔ان میں سے ایک چوہدری منظور احمد کے حلقے سے کھڑی ہیں اب چوہدری منظور جانے اور پی ٹی آئی کی امیدوار جانے رموز مملکت خویش خسرواں دانند انہوں نے وزیر اعظم کے بیان کا حوالہ دینا بھی مناسب نہ سمجھا ۔ کہ معمولی نہیں غیر معمولی سیاسی فائدے کے لیے الزام لگانا عین کار ِ ثواب ہے۔فائدہ وہی ہوتا ہے جو بہت بڑا ہو اور جسے دنیا دیکھے۔معمولی فائدہ محض گناہ ِ بے لذت ہے۔ انہوں نے ٹی ٹیٹیاں لگوانے کا فن ِ شریف بھی نہیں سیکھا۔اس بارے میں اتنا کہنا زیادہ مناسب ہے یہ منہ اور مسور کی دال یا ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ ایک الزام ایک دفعہ کافی ہے دوسری دفعہ کوئی دوسرا الزام لگانا چاہیے۔جیسے شاعر ہر مشاعرے میں ایک ہی غزل ہی نہیں سناتا اس کی بیاض میں اور بھی کشتہ جات ہوتے ہیں اور شاعر ہر دفعہ تازہ کلام سے نوازتا ہے۔ لہذا عمران خان سے دست بستہ گزارش کہ وہ بھی نئے نئے الزام لگائے تا کہ ہم بھی اس کا نیا نیا جواب دیں اور اسٹیبلشمنٹ ہم سے اور خوش ہو اور سال دو سال تک الیکشن ملتوی ہوتے جائیں۔وہ کیوں ہمارے رزق پر لات مار رہے ہیں۔ آخر ہمارے باقی حلیف بھی تو بھی اپنی تان باجوہ صاحب پر ہی توڑتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی تو مولانا فضل الرحمان ( زباں پہ بار ِ خدایا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے ) نے بھی تو ارشاد فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنا دھرنا جنرل باجوہ صاحب کے وعدے پر ہی اٹھایا تھا اور اپنی فوج کو لے کر اپنے ڈیرے کی بیرکوں میں چلے گئے تھے۔باجوہ صاحب نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تھا۔البتہ آخر کار قدرت نے ان کے دل میں القا کیا اور ریجیم آپریشن کامیاب ہوا۔اللہ گواہ ہے چوہدری برادران نے آ کر ہمارے کان میں یہ سرگوشی کی تھی غالب ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے!! ٭٭٭٭٭