برقی قمقموں کی زرد روشنی قلعے کی قدیم سرخ اینٹوں پر پھسلتی اس کے جھروکوں کو چومتی اور اس کی بالکونیوں سے رازو نیاز کرتی فضا پر ایک عجیب دھندلا غبار بن رہی تھی جو صرف رات کے اس پہر قلعے میں موجودگی، قمقموں کی زرد روشنی اور قدیم زمانوں کے احساس کے امتزاج ہی سے جنم لیتا ہے۔بار بار کا دیکھا ہوا شاہی قلعہ رات کے اس پہر روشنیوں میں ڈوبا ہوا ایک الگ ہی چھب دکھا رہا تھا۔یہ اکیسویں صدی کا لاہور شہر ہے، سن ہے 2023۔ مغلیہ عہد کا شاہی قلعہ اور اس کا تعمیراتی شکوہ یہاں آنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور ہم خود کو اس کے سحر میں مبتلا محسوس کرتے ہیں ۔ہم لوگ اس ڈیجیٹل دنیا کے باسی ہیں جو میٹا ورس اور مصنوعی ذہانت کے پروں پر سوار ہو کر حیرت کے نئے جہانوں کی دریافت کررہی ہے۔ لیکن آج بھی مغلیہ عہد کا یہ شاہکار دیکھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ کئی صدیاں پیشتر نقشہ بنانے والوں ،انجینروں، مزدوروں نے تعمیرات کی دنیا میں سہولتیں نہ ہونے کے باوجود اس سطح کا جناتی کام کیسے اس کاملیت کے ساتھ کیا۔شاہی قلعہ کی پہلی پہلی سیر بھی یاد آرہی ہے سکول کی طالبہ کی حیثیت سے کی ۔اس سیر کے لیے امی ابو سے فرمائشیں کیں تھیں۔اس وقت ہمیں ریل والا کیمرہ بھی میسر نہ تھا ۔سو سیر کی تصویریں یادوں کی ریل پر منتقل ہوتی رہیں۔ پھر صحافت میں آکر یہاں آنا ہوا جب صحافیوں کے ایک گروپ کے لئے شاہی قلعہ کی انتظامیہ نے خصوصی انتظامات کیے اور ہمیں اس مغلیہ شاہکار کے کچھ ایسے حصے بھی دکھائے گئے جو عام پبلک کے لئے بند ہوتے ہیں ۔خفیہ راستے تاریک سیڑھیاں عجیب وغریب سرنگیں اس وقت اخبار کا فوٹو گرافر پرفییشنل کیمرے سے قدم قدم پر کھٹا کھٹ تصاویر بناتا رہا۔ شاہی قلعہ میں متعین محکمہ آرکیالوجی کے ایک افسر صحافیوں کو مسلسل بریفنگ دے رہے تھے۔گزشتہ برس پھر ہم یہاں پہنچے کہ بہن ٹیکسلا سے آئی تو ان کے بچوں نے خواہشوں کی فہرست میں پہلے ہی لاہور کی تاریخی عمارتوں کی سیر لکھی تھی وہ بارش میں بھیگا ہوا دن تھا اور ایسا کہ بارش کبھی رکتی کبھی ہمراہ ہو لیتی اور ہمیں رکنے پر مجبور کرتی۔مگر شاہی قلعہ کا نائٹ سفاری وزٹ ایک خاصے کی چیز ہے۔ عید کی چھٹیوں کے اختتامی دنوں میں بڑے بھائی جان کی طرف سے ہم سب کے لئے عید کا ایک تحفہ تھا اور کیا شاندار تحفہ تھا۔اس شام کی خاص بات یہ تھی کہ آغاز حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری سے ہوا۔اقبال بعد از وصال کتاب پڑھنے کے بعد دل میں بے طرح یہ خواہش جاگی کہ حکیم الامت کے مزار پر حاضری دی جائے۔کالم میں کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بے ساختہ یہ بھی لکھ دیا کہ عید کے بعد حاضری کے لیے جائوں گی۔ مگر گمان میں نہ تھا کہ یوں بغیر کسی پروگرام کے اس طرح اچانک یہ دل کی خواہش پوری ہوگی۔میں ہجوم سے الگ ہوکے مرد درویش کے مزار پر حاضری دی۔ فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے اور قلبی سکون محسوس کیا۔یہاں سے حضوری باغ اور اس کے پار قلعہ کا پر شکوہ داخلی دروازہ ایک دیو قامت قدیم لیمپ کی طرح روشن تھا۔ سیر و تفریح کے لیے آئے ہوئے سیاحوں کو یہاںشاہی قلعہ کے احاطے میں الیکٹرک کاروں میں بٹھا کر اور برقی قمقموں سے سجی ہوئی راہداریوں سے گزارتے ہوئے دیوان خاص کے داخلی حصے تک پہنچایا گیا۔ ذہن کہیں صدیوں پیچھے ماضی کی تصویریں خیالات کی سکرین پر بنانے لگا۔ کبھی ان راستوں پر شاہی گھوڑے دوڑتے ہوں گے۔سدھائے ہوئے ہاتھیوں پر سوار ہوکر شہزادے اور شہزادیاں سیر کرتے ہوں گے۔آج یہ شاہی قلعہ ہم جیسے عام لوگوں کے لئے ایک سیر گاہ ہے۔شاہی قلعے کی ان گنت محرابوں میں روشن برقی قمقموں کی روشنی چھن چھن کر ہم تک آ رہی تھی اور گاہے خیال آتا کہ کئی صدیاں پیشتر شاہی قلعہ کے یہ راستے راہداریاں محرابیں اور جھروکے رات کی تاریکی میں کس طرح روشن ہوتے ہوں گے۔ ان جھروکوں میں ان گنت دیے جلائے جاتے ہوں گے۔خدام سر شام ہی جھروکے روشن کرنے کے لیے دیے جلانے کا کام سنبھالتے ہوں گے اور صرف ایک کام پر خدا جانے کتنے خدام مامور ہوں گے۔شہزادے شہزادیوں کی سواریوں کے ساتھ مشعل بردار چلتے ہوں گے انہیں جگنو کہا جاتا تھا۔اکیسویں صدی میں حضوری باغ میں سفید سنگ مرمر سے بنی ہوئی انتہائی حسین عمارت کے سامنے ایک مشعل بردار سے ملاقات ہوئی جو سنہری لبادہ پہنے پلاسٹک کی چائنا لائٹ ہاتھ میں اٹھائے سیاحوں کے آگے چل رہا تھا۔ یہ صاحب جو فوٹو گرافر تھے ہفتے کے دو دن سیاحوں کے لیے مغلیہ عہد کے مشعل بردار کا روپ دھارتے ہیں۔ دیوان خاص پہنچے تو شہنشاہ اکبر کی آمد کا شاہی غلغلہ مچا۔ با ادب با ملاحظہ ہوشیار۔۔ پھر موسیقی کے دھنیں اور کنیز کا کلاسیکی رقص ایک سماں بندھ گیا ، مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اکبر رقص سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ اس سمے ذہن میں مغلیہ سلطنت کے عروج و زوال پر کیسے کیسے موازنے ، تخمینے اور تجزیے کرنے میں لگا تھا کہ کیا بتائیں۔پھر شاہی باورچی خانے میں ایک شاہی باورچی نے ڈسپوزیبل کپوں میں شاہی مہمانوں کو چائے پیش کی گئی۔کئی صدیوں پیشتر کے مغلیہ عہد کی سیر کا نقطہ اختتام قدیم حویلی کی چھت پر بنے ریستوران پر بیٹھ کر ماضی اور حال کو نظر کے ایک ہی فریم میں دیکھنا تھا، نیچے قدیم لاہور کی اونچے چوباروں اور رنگیں بالکونیوں سے سجی گلیاں آتے جاتے سیاحوں سے بھری تھیں ، سامنے شاہی مسجد کے کشادہ صحن کے پار دکھائی دیتا ہوا مینار پاکستان، شاہی قلعے کے پر شکوہ روشن درودیوار اور رنجیت سنگھ کی سفید رنگ کی یادگار، کئی ادوار کئی زمانے۔۔ عروج و زوال کے ان گنت منظر۔۔ دل پر ایک دھیمی دھیمی اداسی اترنے لگی جو دل کو بوجھل نہیں کرتی بس احساس کی ایک کھڑکی کھول دیتی ہے۔وقت کے بہتے دریا کے سامنے سب فانی ہے۔۔سب مایاہے ! قریب بیٹھے اپنے پیاروں کے چہروں پر نگاہ ڈالی عرفان ستار کا یہ شعر بے اختیار یاد آیا یہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسر ہو اس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں