آج 9مئی کو گزرے ایک مہینہ ہو چکا، اس دوران تحریک انصاف بظاہر آسمان سے زمین پر آ گری ہے، اُسے اس وقت مارشل لاء سے بھی زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بہت سے لوگ خاموش ہوگئے ہیں جبکہ بہت سوں نے تحریک انصاف سے دوری اختیار کر لی ہے۔ ویسے تو ان کی اکثریت نے یہ کہہ کر جماعت کو چھوڑا تھا کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر عوام حیران تھے کہ ہمارے قائدین اتنے حساس کیسے ہوگئے کہ وہ 9مئی کے واقعات پر اتنے افسردہ ہیں کہ سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔ لیکن اب پتہ چلا کہ اُن کی یہ ’’بریک‘‘ محض چند دنوں کی تھی اور اب اُن میں سے بیشتر ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ جو کہ جہانگیر ترین نے لانچ کی ہے‘ میں آچکے ہیں ۔ یہ پارٹی اُس بندے نے بنائی ہے جو خود الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا اور نوازشریف کی طرح موصوف بھی الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیے گئے ہیں، جہانگیر ترین نے لاہور کے مقامی ہوٹل میں نئی سیاسی جماعت ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ کا باقاعدہ اعلان کیا، اس موقع پر ان کے ہمراہ پارٹی کے دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ پھر بعد میں ون سائیڈڈ پریس کانفرنس بھی ہوئی، ’’ون سائیڈڈ ‘‘ پریس کانفرنس وہ ہوتی ہے جس میں صحافیوں سے سوال جواب نہ لیے جائیں اور صرف اپنا مدعا بیان کرکے پریس کانفرنس ختم کردی جائے۔ خیر اس نئی جماعت میں پی ٹی آئی چھوڑنے والے عمران اسماعیل، علی زیدی، فواد چوہدری، عامرکیانی، محمود مولوی، جے پرکاش، مراد راس، فردوس عاشق اعوان، فیاض چوہان، نعمان لنگڑیال، ظہیر الدین علیزئی، جاوید انصاری ،طارق عبداللہ، نوریز شکور، رفاقت علی گیلانی، ممتاز مہروی، مہر ارشاد کاٹھیا، عثمان اشرف، جلیل شرقپوری، خرم روکھڑی، دیوان عظمت، جی جی جمال اور اجمل وزیر سمیت پی ٹی آئی کو خدا حافظ کہنے والے دیگر کئی ارکان بھی شامل ہیں۔ یہی سوچ رہا ہوں کہ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں؟ کیا یہاں اخلاقیات نام کی کوئی چیز باقی رہ گئی ہے؟ کہ جو سیاسی لیڈر رو رو کر پارٹی چھوڑ فیاض الحسن چوہان کو دیکھ لیں۔ پھر عمران اسماعیل، علی زیدی وغیرہ کے بیانات دیکھ لیں۔ کیا قول و فعل کی اہمیت ہی کوئی نہیں ہے؟ ضمیر مر چکے ہیںکر گئے تھے ۔وہ چند دن بعد ہی نئی پارٹی میں جا بیٹھے ہیں۔ مراد راس نے رو کر پارٹی چھوڑی تھی۔ فواد چوہدری نے سیاست چھوڑ دی تھی۔ کیا لوگوں کو یاد نہیں ہے کہ اس طرح کی بہت سے تانگہ پارٹیاں بنی ہیں، ماضی میں سیاست جب جنرل ایوب کے زیر سایہ استوار ہوئی، کنونشن لیگ وجود میں آئی، حامی سیاسی جماعتوں کو ایوب خان کی زیر قیادت کنونشن لیگ کی سیاست میں ضم ہونا پڑا۔ ضیا الحق دورنے من و عن تاریخ کو دہرایا۔ فنکشنل لیگ بنی، باقی جماعتیں بشمول بھٹو پارٹی کے سر کردہ رہنما سارے ضیا الحق کی سر پرستی میں رہے ‘البتہ 1993میں نواز شریف نے اپنی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے نکال لیا، بچ گئے۔ مشرف دور میں ق لیگ بنی، تمام حامی جماعتیں اور گروہ حصہ بنے۔ آج وطنی سیاست سے باہرہیں۔یعنی جہانگیر خان ترین کی طرح غلام مصطفی جتوئی سے این پی پی یعنی نیشنل پیپلزپارٹی بھی بنوائی گئی ۔ حالانکہ انہوں نے بحالی جمہوریت تحریک (ایم آر ڈی) میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جب انہیں 1983ء اور 1985ء میں گرفتار کیا گیا۔ تو اُس کے بعد انہوں نے نیشنل پیپلزپارٹی کے نام سے ایک جماعت قائم کی۔کئی بڑے لیڈروں نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ مصطفی جتوئی خود اس پارٹی کے چیئرمین تھے۔ پھر پاکستان مسلم لیگ (جونیجوگروپ) بنی۔ اس کا قیام 1993ء میں عمل میں آیا۔ یہ پارٹی ن لیگ سے ناراض اراکین پر مشتمل تھی لیکن فلاپ ہوئی اور 2004ء میں مسلم لیگ ہی میں ضم ہوگئی۔ پھر 2015میں پیپلزپارٹی کے ناراض رہنماؤں نے اس عزم کے ساتھ ایک نئی پارٹی تشکیل دی کہ وہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی سابق چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے ورثے کو بچانے کی کوشش کریں گے۔پاکستان پیپلزپارٹی ورکرز کے نام سے الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کروائی جانے والی اس سیاسی جماعت کے قیام کا باضابطہ اعلان اس کے صدر صفدر عباسی نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔جہانگیر خان ترین گروپ کی طرح اُس وقت بھی پیپلزپارٹی ورکرز میں صفدر عباسی کی اہلیہ ناہید خان، ساجدہ میر،رانا رضوی، عذرا بانو، صبیحہ سید، ابن رضوی، ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل احسان، فیاض خان، رائے قیصر، ایس ایچ بخاری، نواب خٹک اور پی پی یوتھ ونگ کے سابق صدر شکیل عباسی بھی ان کے ہمرہ تھے۔لیکن یہ پارٹی اب کہاں ہے؟ قصہ مختصر کہ اس وقت جو جماعت عوام کے لیے بنائی گئی ہے، اسے اس وقت ’’کارکنوں‘‘ کی اشد ضرورت ہے۔ میرے خیال میں انہیں ان کی اہمیت کا اُس وقت اندازہ ہوگا جب یہ لوگ عوام کے درمیان آئیں گے۔ یہ لوگ عوام میں جا کر کس قسم کی جھوٹی قسمیں کھائیں گے؟ کونسے وعدے وعید کریں گے؟ کیا یہ لوگ عوام کو بتا سکیں گے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کوخیرباد کیوں کہا؟کیا یہ لوگ یہ بتا سکیں گے کہ یہ لوگ کس منہ سے ووٹ مانگنے کی پوزیشن میں ہوں گے؟ بعض اوقات دوبارہ وزیراعظم بننے سے زیادہ اہم ملک کا مستقبل ہوتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل کی مثال لے لیں۔ چرچل نے جنگ عظیم دوم جیتی لیکن پھر بھی الیکشن ہار گیا۔ چار سال بعد پھر الیکشن لڑا اور جیت گیا۔ اندازہ کریں‘ برطانوی قوم نے اس وزیراعظم کو ووٹ نہیں دیا جس نے انہیں جنگ عظیم دوم میں فتح دلائی تھی تو کیا چرچل تاریخ میں ختم ہوگیا یا دوبارہ وزیراعظم نہیں بنا؟تاریخ واضح نہیں ہے ورنہ اُس وقت ہو سکتا ہے کہ چرچل کے خلاف اُمیدوار کی کسی نے ’’غیب‘‘ سے مدد کی ہو۔ حالات صدا ایک جیسے نہیں رہتے۔ یقینا حالات بدلیں گے، سیاست جیتے گی۔