پاکستان کا آئین ریاست کو وفاقی اور جمہوری طرز حکومت کی ضمانت دیتا ہے ۔تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت رہی ہے کہ اس آئین کے وفاقی اور جمہوری اصولوں پر کسی بھی دور میں پوری طرح عمل نہیں کیا گیا ۔ وفاقی ریاست کی کامیابی دستور میں دیئے گئے جمہوری طریقہ کار کے اختیار کرنے میں ہے۔ یہ انحراف اور مسلسل انحراف وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیان عدم اعتماد اور تنازعات کا سبب بنتا ہے اوربعض اہم قومی نوعیت کے فیصلے اسی عدم اعتماد کی نذر ہو جاتے ہیں جیسے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ ہو یا یا پھر صوبوں میں آبی اور مالیاتی وسائل کی تقسیم کا مرحلہ اور یا پھر مردم شماری کے نتائج پر اتفاق رائے کا حصول۔ پاکستان کا وفاق مختلف لسانی ، ثقافتی اور علاقائی شناختوں کا حامل ہے ۔ مختلف افقی اور عمودی امتیازات کی موجودگی نے ان کی جداگانہ شناختوں کو اور بھی زیادہ حساس بنا دیاہے۔پھر جمہوری عمل کی نا پختگی کے باعث صوبوں اور وفاق میں اکثر سیاسی کشیدگی کا ماحول موجود رہا ہے۔ عام طور پر سندھ اور بلوچستا ن وفاق کے طرز عمل سے شاکی رہے ہیں۔ مضبوط مرکزی حکومت کی حکمت عملی سے صوبوں کو اپنے دستوری اختیارات استعمال کرنے میں مشکلات درپیش رہی ہیں۔2010 میں کی گئی اٹھارویں دستور ی ترمیم نے صوبوں کے مالی اور انتظامی اختیارات میں وسعت پیدا کی اور صوبے بڑی حد تک اپنے معاملات چلانے میں خود مختار ہو گئے۔ اٹھارویں دستوری ترمیم سے صوبوں نے تو وفاق سے اختیارات حاصل کر لئے مگر ان اختیارات کو شہروں کی سطح تک دینے میں ہمیشہ تامل کا شکار رہے ہیں جو صراحتاً ایک غیر جمہوری عمل ہے۔ اس تناظر میں سندھ کی صورتحال سیاسی اعتبار سے قدرے الجھی ہوئی اور پیچیدہ ہے۔ سندھ کا دارالحکومت کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اس کی معاشی اور سماجی حیثیت اسے ایک خصوصی سیاسی ا متیاز کا حامل بناتی ہے۔ پھر یہ کہ پا کستان کے وفاق میں سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں شہری ( کراچی ، حیدر آباد اور سکھر پر مشتمل) اور دیہی امتیاز کی لکیر قائم ہے۔ اور اس کی بنیاد پر وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں تقسیم کا نظام (کوٹہ سسٹم )اختیار کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق سندھ شہری کو صوبائی ملازمتوں میں چالیس فیصد اور وفاق میں سندھ کے لئے مختص انیس فیصد کوٹے میں سے سندھ شہری کو 7.6 فیصد حصہ حاصل ہے۔ سندھ کی دیہی پسماندگی کو بنیاد بناتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973میںاسے دس سال کے لئے متعارف کرایا تھا مگر یہ پچاس سال گزرنے کے باوجود آج بھی اسی طرح نافذالعمل ہے۔اول تو سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ناانصافی پر مبنی امتیازی سلوک ہے تو ثانیاً آبادی کی بدلتی صورتحال میں اس کا طے شدہ تناسب بھی ( دیہی سندھ 60فیصد،شہری سندھ 40 فیصد ) اب حقائق کے مطابق نہیںرہا۔ 2023 کی مردم شماری کے جو نتائج اب تک سامنے آئے ہیں ان کے مطابق سندھ کی کل آبادی پانچ کروڑ اٹھتر لاکھ پچیس ہزار سے کچھ زائد ہے جس میں سے شہری سندھ کی آبادی تین کروڑ اکیاسی لاکھ ااور دیہی سندھ کی آبادی ایک کروڑ چھیانوے لاکھ شمار کی گئی ہے اور کراچی کی آبادی ایک کروڑ نوے لاکھ شمار کی گئی ہے جبکہ یہ کسی طر ح بھی ساڑھے تین کروڑ سے کم نہیں ہے۔ سیاسی اداروں میں نمائندگی آبادی کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے ۔وفاق اور صوبوں میں قائم نمائندہ سیاسی اداروں میں یہ ہی اصول اختیار کیا جاتا ہے تاہم سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ جو آبادی سرکاری طور پر تسلیم شدہ ہے ہر دو سیاسی اداروں ،قومی اسمبلی اور سندھ کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی اس کے مطابق نہیں ہے ۔2017 کی مردم شماری کے ،مطابق سندھ کی کل آبادی چار کروڑ اٹھتر لاکھ سے کچھ زائد شمار کی گئی تھی جس میں سندھ شہری کا حصہ دو کروڑ انچاس لاکھ یعنی سندھ کی کل آ بادی کا باون فیصد تھا جب کہ سندھ اسمبلی کی 130 عام نشستوں میں سندھ شہری کی 54 نشستیں مختص کی گئی تھیں یعنی 41 فیصد۔ باون فیصد آبادی کے لئے نمائندگی محض اکتالیس فیصد یعنی گیارہ فیصد کم۔یہ بھی واضح رہے کہ شہری آبادی کے سرکاری اعداد و شمار اور حقیقی آبادی میں بہت زیادہ تفاوت پہلے ہی موجود ہے بالخصوص کراچی کی آبادی کو ہمیشہ ہی کم گنے جانے کی جائز شکایات رہی ہیں۔ اول تو شہری آبادی کم گنی گئی اس پر مستزاد جو آبادی سرکاری طور پر تسلیم شدہ ہے اس کے مطابق بھی سیاسی نمائندگی دینے میں ناانصافی روا رکھی گئی ۔یعنی دہرا نقصان ! سندھ کی سیاست میں شہری سندھ کی نمائندگی کوکم رکھے جا نے کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر آبادی کو صحیح گن لیا جائے اور اس کے مطابق سندھ کی سطح پر درست نمائندگی بھی ہو تو پھر حکومت سازی میں شہری سندھ کو غالب اور فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو جائے گی جو برسوں سے سندھ پر دیہی سندھ سے تعلق رکھنے والی حکمران اشرافیہ کو منظور نہیں۔ سیاسی توازن تبدیل ہو جانے کے خوف سے جمہوری اور سیاسی حقوق کو زیادہ دیر کے لئے نہیں دبایا جاسکتا۔ دیہی سندھ ہو یا شہری سندھ سیاسی حقوق سب کے مساوی ہیں انہیں پوری خوش دلی سے تسلیم کیا جانا چاہیئے۔ ویسے تو اب سندھ میں شہری اور دیہی بنیاد پر کوٹا سسٹم کی ضرورت نہیں رہی ہے ۔ تعلیم،صحت اور رابطوں کی تمام تر سہولیات اب دیہی اور شہری سندھ میں یکساں ہو چکی ہیں لہٰذا اب اس تخصیص کو ختم کیا جانا چاہیے۔ اس سے سندھ کی سطح پر موجود عصبیت ، مغائرت اور افتراق کی فضا میں لازماً کمی ہوگی اور یقینی طور پرباہمی افہام و تفہیم کی صورت پیدا ہوگی۔سندھ میں مستقل رہنے والوں کے درمیان فاصلے کم کئے جانے میں ہی سندھ اور اہل سندھ کی بھلائی ہے۔ یہاںرہنے والے تمام لوگوں کے سیاسی ، معاشی اور سماجی حقوق یکساں ہیں ۔اس سلسلے میں سندھ کی حکمراں قوتوں کو دور رس نتائج کے حصول کے لئے سیاسی دانائی کو بروئے کار لانا ہوگا اور جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہونگے۔ بعینہہ سندھ کے شہری علاقوں میں مقیم لوگوں کو بھی کشادہ دلی اور وسعت نظر سے کام لینے کی شدید ضرورت ہے۔ سندھ کی ثقافتی شناخت سے اجنبیت اور دوری اب ان کے مفاد میں نہیں اسے اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہی محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ اسی طرز عمل سے سندھ کی ترقی اور مفادات کا تحفظ ممکن ہے۔ آج نہیں تو کل‘ یہ راہ عمل اختیار کرنا ہوگی بہتر ہے کہ اسے آج ہی اختیار کر لیا جائے۔