پانچ جولائی کو ہر سال ملک کے طول وعرض میں ایک ایسے دن کے طور پر یاد کیا جاتاہے جب آج سے 46 سال قبل جنرل محمد ضیا الحق نے اقتدار پر شب خون مار کر منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت معزول کی۔21 ماہ بعد انہیں راولپنڈی جیل میں ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پھانسی چڑھادیاگیا۔ بھٹو کا اس طرح اچانک سیاسی منظر نامے سے اوجھل ہوجانا اور ملک پر طویل عرصے تک جنرل ضیا کی حکومت کے بعد گمان تھا کہ ملک میں ان کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔ اس کے اندازے کے برعکس جنرل ضیا کی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد نہ صرف پی پی پی بے نظیر بھٹو کی لیڈرشپ میں ایک بہت بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ابھری بلکہ وہ واحد ملک گیر سیاسی قوت تھی۔ چنانچہ اس کے راستے میں دیوار کھڑی کرنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل پایا جسے ریاستی اداروں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اگرچہ بھٹو کو سولی چڑھادیاگیا لیکن 46 سال گزرنے کے باوجود قومی سیاست میں بھٹو ایک سیاسی شناخت کے طور پر موجود ہے۔ آج بھی ان کابھٹو خاندان اور ان کی پارٹی سندھ اور وفاقی حکومتوں میں شامل ہیں۔ اگر گزشتہ چھیالیس برسوں کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو پانچ بڑے سبق ملتے ہیں جنہیں آج بھی حرز جان بنانے کی ضرورت ہے۔ ۱۔پہلا سبق یہ ہے کہ لیڈرلوگوں کے دلوں اور دماغوں کو ایسے مسخر کرلیتے ہیں کہ وہ دہائیوں تک ان سے جذباتی طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں۔باالفاظ دیگر سیاسی جماعتیں یا شخصیات سیاسی عصبیت پیداکردیتی ہیں جو مختلف رنگوں اور نسلوں کے لوگوں کو ایک قبیلے میں پرو دیتی ہے۔ ۲۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ سیاسی لیڈروں یا نظریات کا خاتمہ صرف اور صرف سیاسی عمل سے ممکن ہے۔ اس کے لیے سیاسی پراسیس، تسلسل سے ہونے والے الیکشن اور شہریوں کی سیاسی اور سماجی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنا برا بھلا سمجھ کر خود بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرسکیں۔ ۳۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور شخصیت کو عدالتوں کے ذریعے سیاسی کھیل سے باہر کرنا کوئی کارگر نسخہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بدترین مخالفین بھی ان کی پھانسی کو جوڈیشل مرڈر کہتے ہیں۔ حتیٰ کہ نوازشریف جن پرجنرل ضیا الحق اپنی عمر بھی قربان کرنا چاہتے تھے وہ بھی اس عدالتی فیصلہ پر افسوس کا اظہارکرچکے ہیں۔ ۴۔ چوتھا سبق یہ ہے کہ یکطفرفہ پروپیگنڈے اوراشتہاری مہم کے ذریعے جن لیڈروں یا جماعتوں کو غداراور ملک دشمن قراردیا جاتاہے۔ ان کی پذیرائی میں کمی نہیں آتی بلکہ ان کے حامی مزید سخت جان ہوجاتے ہیں۔ بھٹو اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔ آج بھی کراچی سے خیبر تک بھٹو سے محبت کرنے والے موجود ہیں لیکن جنرل ضیا کا کوئی نام لیوا نہیں اور نہ انہیں پھانسی کی سزا دینے والوں کا کوئی عزت سے ذکر کرتاہے۔ ۵۔ پانچواں سبق یہ ہے کہ سیاسی لیڈروں کو پھانسی دینے، ان کے حامیوں کو پابندسلاسل کرنے سے، سیاستدانوں کو زور زبردستی ایک جماعت سے دوسری جماعت میں شامل کرنے سے جماعتیں ختم ہوتی ہیں اور نہ لیڈر قصہ پارینہ بنتے ہیں۔ ضیا کے مارشل لاکے بعد پی پی پی کی 40 رکنی مجلس عاملہ سے 38 اکابرین پارٹی چھوڑ گئے۔ عثمان بزدار کی طرح مصفطے کھر پارٹی کو آزمائش میں دیکھ کر ملک سے فرار ہوگئے۔پرویز خٹک کی طرح مصطفے جتوئی نے طاقت ور حلقوں سے سازباز کرلی لیکن آج مصطفے جتوئی اور مصفطیٰ کھر کا نام ونشان باقی نہیں رہا۔ یہ ساری کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ناکام تجربات دہرانے سے نتائج تبدیل نہیں ہوتے۔صفر جمع صفر کا نتیجہ صفر ہی ہوتاہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ملک میں سیاسی انتقام سے گریز کرے اور لوگوں کو زور زبردستی سیاسی وابستگی تبدیل کرنے پر مجبور نہ کرے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ جب سیاستدان اپنے مسائل خود حل نہیں کرپاتے تو تیسری قوت راستہ بنالیتی ہے۔ اس کی تازہ مثال آئی ایم ایف کی سیاستدانوں سے ملاقاتیں ہیں۔ چند دن قبل آئی ایم ایف کے اعلیٰ سطحی وفد کی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات اس امر کا عندیہ ہے کہ عالمی ادارے ملک کے اندر مختلف قومی ایشوز پر تمام سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے چاہتے ہیں۔ بشمول معیشت پر۔ آئی ایم ایف کی ٹیم کی پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے ملاقات یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ تمام تر سرکاری دباؤ، تشدداور پروپیگنڈہ مہم کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے تحریک انصاف کو ایک حقیقت یعنی گراونڈ رئیلیٹی تصور کرتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی معاہدہ عمران خان کو اعتماد میں لیے بغیر پائیدار نہیں ہوسکتا۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ وہ ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ آئی ایم ایف ایسی کسی بھی حکومت سے لین دین نہیں کرنا چاہیے گا جو آئی ایم ایف کے پروگرام کے تسلسل کو یقینی بنانے کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ ملک کے اندرقومی امور پر اتفاق رائے پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ شہبازشریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی مخلوط حکومت قومی سطح پر سیاسی ماحول پیدا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ بھارت میں جب اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی وہ ہر اہم قومی مسئلہ پر کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی کو اعتماد میں لیتے تھے۔ من موہن سنگھ وزیراعظم منتخب ہوئے تو وہ بی جے پی کے لیڈرایل کے ایڈوانی کے گھر بغیر پروٹوکول کے جاتے اور انہیں مختلف امور پر بریف کرتے۔ ہمارے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض ہیں جو برملا کہتے ہیں کہ جنرل الیکشن نہیں ہونا چاہیے اور وہ اگلا الیکشن حکمران جماعت نون لیگ کے پلیٹ فارم سے لڑیں گے۔ سیاسی حقیقتوں کو جو بھی حکومت تسلیم نہیں کرتی وہ اپنا اور ملک کا نقصان کرتی ہے۔ حکومت پاکستان کو الیکشن سے پہلے ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کرنا چاہیے جس میں تمام سیاسی قوتیں بغیر کسی دباؤ کے الیکشن مہم چلاسکیں تاکہ مقابلے اور مسابقت کی صحت مندانہ فضا پیدا ہوسکے۔ ایک فریق کے ہاتھ پاؤں باندھ کر الیکشن کرانے سے بہتر ہے کہ یہ گناہ بے لذت نہ ہی کیا جائے۔ ٭٭٭٭٭