کچھ لوگوںکو دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کا شوق ہوتا ہے۔کوئی ان کی مانے نہ مانے کوئی ان کو سنے نہ سنے، زبردستی مشورے دینا شروع کر دیتے ہیں۔ بے وقوف بھی ان لوگوں میں سے ایک ہے۔ ہزار دفعہ اس کو منع کریں وہ باز نہیں آئے گا اور کسی کو مشکل میں پھنستے دیکھ کر عجیب و غریب مشورے دینا شروع کر دے گا۔ ایسا ہی کچھ اس نے عمران خان کے بارے میں بھی کہا۔ 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے بعد جنرل باجوہ سے غیر جانبداری یعنی نیوٹرل والا جوا ب ملنے کے بعد عمران خان نے جلسے کرنا شروع کر دیئے۔ حکومت گرنے کے بعد اس کی رفتار میں اتنا اضافہ کر دیا کہ بہت کم دن خالی جاتے تھے۔ جب وہ جلسہ عام سے خطاب نہیں کرتے تھے۔جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم کے خلاف عمران خان کی زبان تلخ ہوتی جا رہی تھی۔ ان کی تقاریر کا فوکس سیاسی مخالفین کی بجائے مقتدرہ کے حلقے ہوتے تھے اور یہ بتایا جا رہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح فوج کو دبائو میں لا کر وہ نون لیگ کی طرح کی ڈیل لے سکتے ہیں۔ بے وقوف کو لگا کہ عمران خان جس راستے پر جا رہے ہیں یہ وقتی طورپر خود ان کے لیے ہر دلعزیزی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ لیکن بالآخر یہ انہیں فوج سے ٹکرائو کی طرف لے جائے گا۔ عمران کے سیاسی مخالفین کے لیے یہ آئیڈیل صورت حال بن رہی تھی لیکن عمران کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آ ئے گا۔ جولائی2022ء کے شروع میںبے وقوف فیصل آباد پی ٹی آئی کے ایک مرکزی لیڈر کے پاس پہنچ گیا۔ اور انہیں کہا چونکہ آپ ایک فوجی خاندان سے ہیں اور موجودہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے سمدھی ہیں ۔ہو سکتا ہے عمران خان آپ کی بات پر توجہ دیں۔ براہ کرم آپ ان کو سمجھایئے کہ جس راستے پر وہ جا رہے ہیں یہ ان کی پارٹی اور خود انہیں تباہی کی طرف لے جائے گا۔ مسئلہ ان کا نہیں ان کروڑوں لوگوں کا ہے جو ان سے امیدیں وابستہ کر بیٹھے ہیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں آگ میں جھونکنے کی بجائے روشن مستقبل کی منزل پر لے کر جائیں۔بحرحال اس کے خیال میں عمران خان کو یہ کام کرنا ہوں گے۔ 1۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کا اصل دشمن کون ہے؟ شہباز شریف جس نے اس کی وزیراعظم والی کرسی پر قبضہ کر لیا ہے۔ یا جنرل باجوہ، مسلم لیگ ن جس نے کل کلاں اس کا پنجاب کے انتخابی دنگل میں مقابلہ کرنا ہے یا یار لوگ۔ 2۔جس قدر ضرورت تھی عمران خان اس سے زیادہ یار لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یار لوگ بے عزتی برداشت نہیں کرتے۔ معاملات ان کے اور یار لوگوں کے درمیان تیزی سے ڈیڈ لاک کی طرف بڑھ رہے تھے، جس سے عمران خان دوبارہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کی منزل سے بہت دور ہو جائیں گے عمران خان اور یار لوگوں کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا کہ وہ اقتدار ان کے مخالفین کو پیش کر دیں۔ 3۔ تیسرا یہ کہ روزانہ کبھی یہاں کبھی وہاں جلسے کر کے اپنے کارکنوں کو جسمانی و معاشی طورپر تھکا رہے تھے۔ یار لوگوں پر تنقید کی طرح یہاں بھی وہ حد کو کراس کر رہے ہیں۔ماضی میں قاضی حسین احمد روزانہ دھرنے اور لانگ و ملین مارچ کر کے جماعت اسلامی کا بیڑا غرق کر چکے ہیں۔ عمران خان اپنے خلاف سازش کا بیانیہ گھوٹ کر عوام کو پلا چکے ہیں اور ان کو آرام کاموقع دیں اور خود یار لوگوں سے رابطے بحال کر کے جلد از جلد فوری انتخابات پر کوئی ڈیل لینے کی کوشش کریں۔ ورنہ یہی کارکن تھک کر حوصلہ ہار گئے تو عمران خان سیاسی مخالفین پر مطلوبہ دبائو سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ ان کے پاس نواز شریف کی طرح کوئی شہباز شریف نہیں جو وہ یار لوگوں کے ساتھ گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کا کھیل کھیل سکیں۔ انہیں خود بھی بیڈکاپ سے گڈ کاپ بننا ہوگا اور مذاکرات کی کھڑکی کھولنی ہوگی۔ اس کے بعد وہ لاہور آکر عمران خاں کے قریبی ساتھی وہاڑی کے ایک سابق ایم این اے سے ملا۔ ان سے بھی یہی گزارشات کیں۔ پھرانہیں ساتھ لے کر عمران خاں کے بچپن کے کلاس فیلو چیچہ وطنی سے ایک سابق ایم این اے اور تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کے سربراہ سے ان کے گھر ماڈل ٹائون میں جاکر ملا۔ پھر پارٹی کے صوبائی عہدیداروں حتیٰ کہ عمران خان کے پڑوسی اور ہمدرد دانشور وکیل سیاستدان سے بھی ملا اور یہی گزارش کی کہ اسے سمجھائیں کہ اپنے اصل دشمن کو پہچانے، فوج جس کی مرضی کے بغیر پاکستان میں کوئی اقتدار میں نہیں آسکتا سے معاملات کو مزید خراب نہ کرے اور کارکنوں کو مت تھکائے ورنہ ’’تیری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘ کئی اوروں کے علاوہ اس کے پڑوسی نے اسے اس کے گھر جاکر اسے سمجھایا بھی لیکن عمران خان تو ہوا کے گھوڑے پر سوار سرپٹ ’’کوئے جاناں‘‘ یعنی اٹک جیل کی طرف دوڑے جا رہے تھے جہاں تنہائی ہی تنہائی کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ کسی نصیحت پر کان دھرنے کی بجائے عمران خان نے یار لوگوں کواس حد تک زچ کر دیا کہ بالآخر تاریخ میں پہلی بارڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ تب بھی نہ سمجھے کہ معاملات تو حد سے تجاوز کر گئے ہیں اور ڈیل کی بجائے ڈیڈ لاک کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب انہیں مزید کمزور کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ان پر آسانی سے ہاتھ ڈالا جاسکے، قومی اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر تو پہلے ہی پارلیمانی اکھاڑہ میں اپنے مخالفین کو واک اوور دے چکے تھے اب فواد چودھری جیسے مہروں کے ذریعے ان کو ٹریپ کر کے پنجاب اور کے پی کے سے ان کی حکومتیں بھی ختم کروا دی گئیں۔ اب مقدمات میں الجھا کر ان کو ٹھکانے لگانے کا عمل شروع ہوا ۔ 9 مئی کے واقعات پی ٹی آئی کے لیے 9/11ثابت ہوئے۔ بس قصہ ختم۔ ان کی سزا ،نااہل اور گرفتاری سے وہ آخری رسومات ہیں۔خود نوشتہ دیوار تھیں۔ بے وقوف سے بڑے بے قوف کو بھی سال پہلے ہی سب کچھ نظر آنا شروع ہوگیا تھا پتہ نہیں دیوتائے زماں اور اس کے حواریوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی تھی؟ سنتے ہیں انہیں تب تک کوئے جاناں رکھا جائے گا جب تک ان کے اندر کا دیوتا نکال باہر نہیں کر دیا جاتا!!!