گلوریا سٹینم نے کہا ’’ضروری نہیں قانون اور انصاف ہمیشہ ایک ساتھ ہوں اگر ایسا ہو تو قانون کو رد کرنا ہی قانون کی تبدیلی اور عدل کا آغاز ہو سکتا ہے۔ انصاف اور عدل میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قاضی کے سامنے ایک جوان اور ایک بچے کے درمیان 4روٹیوں کی تقسیم کا معاملہ آئے تو اگر قاضی دونوں میں دو دو روٹیاں تقسیم کرتا ہے تو اس نے انصاف کیا جبکہ اگر قاضی یہ سوچ کر فیصلہ کرتا ہے کہ جوان آدمی کا پیٹ دو روٹیوں سے نہیں بھرے گا اور بچے کے لئے دو روٹیاں بہت زیادہ ہیں اورقاضی بچے کو ایک اور جوان کو تین روٹیاں بانٹنے کا حکم صادر کرتا ہے تو یہ انصاف نہیں عدل ہو گا۔ انصاف اور عدل میں معاملہ کرنے کی میزان ایک ہی ہوتی ہے مگر انصاف میں قاضی ایک پلڑے میں قانون اور دوسرے میں معاملہ رکھتا ہے جبکہ عدل میں ایک پلڑے میں معاملہ اور دوسرے میں قوم کا اجتماعی ضمیر رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قاضی القضا ۃ نے اہم قومی معاملات کی عدالتی کارروائی میڈیا پر دکھانے کا فیصلہ کر کے پاکستانیوں کو انصاف اور عدل میں فرق سمجھانے اور قوم کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش ہے۔ منشا یہ ہے کہ اگر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے باوجود اجتماعی ضمیر کی یہ آواز ہو کہ عدل نہیں انصاف ہوا ہے تو قومی اجتماعی ضمیر کو یہ ادراک بھی ہونا چاہئے کہ اس کی وجہ عدالت اور قاضی نہیں بلکہ قوانین بنانے والی اشرافیہ ہے جس نے ایک پلڑے میں قانون رکھ کر انصاف کی دیوی کی آنکھوں ہی نہیں ضمیر پر بھی سیاہ پٹی باندھ دی ہے۔ قوانین بنانے والوں نے کس عیاری سے قاضی کے ضمیر اور عدل کو قانون سے باندھ رکھا ہے۔ قاضی القضاۃکی یہ کوشش لیول پلینگ فیلڈ کیس کی سماعت کے دوران پوری طرح عیاں ہوئی جب تحریک انصاف کے وکلاء عدل کی التجا کرتے ہیں اورانصاف ثبوت کا تقاضہ کرتا ہے۔ ثبوت پیش کرنے کے آداب کا قانون بھی اشرافیہ نے یہ سوچ کر بنایا ہے کہ انصاف صرف سائل کی درخواست اور ثبوت پیش کرنے کے آداب کے دائرہ میں رہ کر ہی ہو گا۔ اشرافیہ کے کھینچے اس دائرے سے باہر وکیل جا سکتا ہے نہ قاضی کو دیکھنے کی اجازت ۔ عدالت کو قانون کے اس گورکھ دھندے میں رکھ کر انصاف کروانے کی ضدکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قاضی نے اگر کسی کو قتل ہوتے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہو تب بھی قاضی قانون کے مطابق پیش کئے گئے ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں انصاف تو کر سکتا ہے عدل نہیں۔ قومی اجتماعی ضمیر کیساتھ اس سے بڑھ کر مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایلیٹ قانون کے نام پر جب چاہے قاضی کو اپنی مرضی کے فیصلے لکھنے پر مجبور کرنے پر قادر ہو۔ مقدمہ چاہے ذوالفقار علی بھٹو کا ہو یا پھر نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا، نظام عدل کے ساتھ کھلواڑ ہی توہے کہ قانون ساز اور اشرافیہ قانون کو موم کی ناک کی طرح جب چاہے اپنی ضرورت کے مطابق موڑ لے اور قاضی قانون کے ہاتھوںاپنی ہی عدالت کے فیصلوں کو رد کرنے پر مجبور ہو۔ ثبوت اور شواہد بھی قانون سازوں کی خواہش کے مطابق پیش کئے جائیں اور قانون کو بندوق کی نوک بنا کر قاضی سے ضرورت کے مطابق فیصلے بھی لے لئے جائیں۔ وکیل دھائی دے کہ اس کے سائل کو لیول پلینگ فیلڈ مہیا نہیں کی جارہی تو قاضی قانون کے مطابق اشرافیہ کے جوابات کی روشنی میں ہی انصاف کرنے اور عدالت کے باہر ہونے والی ناانصافیوں کو جانتے اور مانتے ہوئے بھی نظر انداز کرنے پر مجبور ہو۔ مجبوری بھی ایسی کہ مظلوم اور اس کا وکیل بھی کم از کم کمرہ عدالت میں عدالت کو قانونی شواہد پیش نہ کر پانے کا الزام اپنے سر لینے پر مجبور ہو۔ وکیل کاغذات نامزدگی چھیننے کی دھائی دے تو قاضی دستاویزی ثبوتوں کی مجبوری بتائے، وکیل جبری گمشدگی اور ہراساں کرنے کا رونا روئے تو قاضی متاثرین کے خود عدالت میں پیش ہونے کی قانونی مجبوری بتائے۔ وکیل ایک پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ کو انتخابات سے باہر رکھنے کی بات کرے تو قانون 76فیصد کاغذات کے منظور ہونے کو عذر بنائے۔ قانون کے مطابق انصاف اور خواہش کے مطابق قوانین کے موجود ہونے کو محسوس کرتے ہوئے ہی جارج واشنگٹن نے کہا تھا کہ جتنے زیادہ قوانین ہوں گے اتنے ہی زیادہ ناانصافی کے امکانات بھی رہیں گے۔ ویلیم سکاٹ ڈئونی انصاف کے بغیر قانون کو ایسا ناسور مانتے ہیں جس کے تعفن سے معاشرہ زہر آلود ہوتا ہے ۔ انصاف پر مبنی قوانین اسی صورت بن سکتے ہیں جب قانون سازوں کی نیت قانونی راستے ڈھونڈنے کے بجائے عدل و انصاف کے لئے قانون سازی کی ہو۔ اگرانصاف کے بجائے قوانین مخالفین کو کچلنے اور حمائتیوں کو مکھن میں سے بال کی طرح نکالنے کی نیت بنائے جائیں تو پھر وہی ہو گا جو وطن عزیز میں ہو رہا ہے۔ قانونی ادارے قانون کے بجائے حکمران کی مرضی کے مطابق کام کریں گے قانون مکڑی کا وہ جالا ثابت ہو گا جس میں کمزور پھنس کر مر جائے گا اور طاقتور توڑ کر آزاد پھرے گا۔ عدالت اور قاضی نے قوم کے اجتماعی شعور جگانے کے لئے عدالتی کارروائی میڈیا پر دکھا کر معاملہ قانون سازوں اور قوم پر چھوڑ دیا ہے۔ اب یہ فیصلہ قانون ساز اشرافیہ اور ان کو منتخب کرنے والی قوم نے کرنا ہے کہ وہ کس طرح کے قوانین اور انصاف چاہتے ہیں۔ فیصلہ جن کا ہو گا ذمہ داری بھی ان ہی کی ہو گی ناکہ عدالت اور قاضی کی!اگر اسی طرح اشرافیہ اور مقتدرہ کی ضرورت اور خواہش کے مطابق دستورسازی ہوتی رہی تو کوئی نا کوئی جالب اس دستور کو سحر بے نور کو ماننے سے انکار کرتا رہے گا ۔