کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے میں کہیں جا رہا تھا۔ یک طرفہ سڑک تھی۔میں نے محسوس کیا کہ سامنے سے آنے والی ویگن بڑی بے تکلفی سے تیزی سے بڑھتی میری گاڑی سے ملاقات کی متمنی ہے۔ خطرے کا احساس ہوتے ہی میں نے گاڑی کو پوری قوت سے فٹ پاتھ کی طرف موڑ دیا۔ فٹ پاتھ کافی اونچا تھااور میری گاڑی کوشش کے باوجود اس پر چڑھ نہیںسکتی تھی۔چنانچہ اگلاپیہہ اس سے رگڑ گیا۔ فائدہ یہ ہوا کہ ویگن سیدھا گاڑی کے فرنٹ سے ٹکرانے کی بجائے اس کے ٹیڑھے ہونے کے سبب پچھلے دروازے اور ڈگی کے ایک حصے کو کاٹتی آگے نکل گئی۔لوگوں کے شور مچانے اور روکنے پر ڈرائیور نے گاڑی کھڑی کی اور بڑی بے تکلفی سے میری طرف بڑھا اور کہنے لگا، سر اﷲدی قسمیں! میرا کوئی قصور نیں۔ یہ سب سواریاں گواہ ہیں۔ پچھلے دس میل سے میں جان پر کھیل کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ بڑے لوگوں کواﷲ نے بچایا ہے۔ جناب بریک ہی فیل ہو چکی ہے میں کیا کرتا۔لوگوں کو منزل تک چھوڑنا بھی ضروری تھا۔ اس قدر جاہل آدمی کو میں کیا کہتا۔ وہاں کھڑے لوگ اسے اور اس کی سواریوں کو ان کی بے حسی پر لگے گالیاں نکالنے۔اب وہ منتیں کرنے لگا اور کہنے لگا کہ آ جائیں ہمارے اڈے پر پہنچ کر آپ کی گاڑی کا بھی کچھ کر دیتے ہیں۔ لیکن لوگوں نے مجھے منع کر دیا کہ یہ ایک مافیا ہے ۔ ان کے اڈے پر ان کا راج ہے ۔وہاں پولیس بھی ان کے سامنے بے بس ہوتی ہے۔ وہاں پہنچ کر یہ بد تمیزی پر اتر آئیں گے اور کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔بہر حال ان کے یہ کہنے کے باوجود کہ’’ ہم غریب آدمی ہیں‘‘ لوگوں نے مک مکا کرا دیا۔ جو اس نے تھوڑا بہت نقصان کا ازالہ کیا وہ ایک مذاق ہی تھا مگر چلیں شاید اس بہانے اس ڈرائیور کوکچھ تو احساس ہو ہی جائیگاکہ بغیر بریک گاڑی چلانا کتنا نقصان دہ ہے۔ یہ سڑک جس پر حادثہ پیش آیا،دو رویہ تھی مگر ایک طرف کچھ مرمت کے سبب بند تھی ۔مگر لاہور میں باوجود کوشش کے حکومتی ادارے ہر سڑک پر ٹریفک کنٹرول کرنے اور حادثات پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔سارا دن کسی نہ کسی جگہ ٹریفک جام ہوتی ہے۔ گاڑی چلانا انتہائی دوبھر ہے۔ سر درد اور بلڈ پریشر کا باعث۔ میں اس کی بڑی وجہ پولیس کو سمجھتا ہوں۔چند دن پہلے غالباً29 یا30 دسمبر کی بات ہے۔ رائے ونڈ روڈ پر پھوبتیاں چوک پر ٹریفک بند تھی۔ مجھے چوک کراس کرنے میں پونے دو گھنٹے لگے۔ چوک میں ایک پولیس والا اور کچھ نوجوان ٹریفک کو کلیر کرنے کے لئے پورا زور لگا رہے تھے۔میں سوچ رہا تھا کہ فقط ایک آفیسر کی اس وقت ٹریفک کنٹرول کرنے کی ڈیوٹی اس کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور عوام کے ساتھ بھی۔ چوک کراس کرنے کے بعد ٹریفک رواں دواں تھی۔ مگر یہ کیا کہ چوک سے چند قدم آگے ہمارے ٹریفک کے بقیہ آفیسر ٹرکوں کو روک کر اپنا بھتہ وصول کرنے میں مصروف تھے۔ان آفیسرز کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ٹریفک بند ہے، اسے بحال کرنا ان کا فرض ہے۔ کیونکہ بھتہ وصول کرنا زیادہ ضروری تھا۔ ٹریفک کنٹرول کرنے پر کسی نے واہ واہ نہیں کرنی تھی مگر بھتے میں سے حصہ لیتے ہر شخص نے خوش ہونا تھا۔شاباش جوانوں، بھتہ وصول کرتے اور اپنے سینئر کو خوش کرتے رہو۔ آپ کی پروموشن کسی کارکردگی پر نہیں بلکہ ایسی ہی خوشیوں کی محتاج ہوتی ہے ۔ لاہور کی بہت سی سڑکوں کو سگنل فری کر دیا گیا ہے۔لیکن اس سے بھی ٹریفک میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔رائے ونڈ روڈ پر ٹریفک کا بہت دبائو تھا۔ اڈا پلاٹ سے ایک نئی سڑک خیابان امین اور ویلنشیا کو چھوتی ہوئی توپباز چوک تک تعمیر ہوئی۔ اس سڑک کی تعمیر کے بعد ٹریفک دو حصوں میں بٹ گئی۔اس کے بعد توپباز چوک تک آنے کے لئے آپ رائے ونڈ روڈ اور دوسری نئی تعمیر شدہ سڑک جس سے مرضی آئیں۔اس سے رائے ونڈ روڈ پر ٹریفک کا دبائو خاصہ کم ہوا۔ ٹریفک والوں نے اب عوام پر یہ نیا کرم کیا ہے کہ شوکت خانم سے آنے والی سڑک کو سگنل فری کر دیاجس کے لئے توپباز چوک کو کچھ طرف سے بند کر دیا گیا۔جو ٹریفک نئے رستے سے توپباز چوک آ رہی تھی اسے مڑ کر واپس رائے ونڈ روڈ کی طرف آنا پڑا اور رائے ونڈ روڈ سے چند قدم پہلے یو ٹرن لے کر واپس جانا ہوتا ہے۔ نیا راستہ پہلے ہی کچھ لمبا تھا اب اس نئے طریقہ کار سے ان کا راستہ بھی مزید بڑھ گیا ہے اور عملاً انہیں رائے ونڈ روڈ تک آنا پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوگ نئے رستے کو قدرے کم اپناتے ہیں اور ساری ٹریفک رائے ونڈ روڈ پر آ گئی ہے۔شام پانچ بجے کے بعد آپ کو رائے ونڈ روڈ پر اس قدر رش ملتا ہے کہ دیر تک وہاں سے گزرنا ممکن نہیں ہوتا۔سنا ہے کہ توپباز چوک پر ایک یو ٹرن بنے گا۔ لیکن کب ۔اس وقت تک ہمارے ٹریفک کے ارسطو قوم کو مصیبت میں مبتلا رکھیں گے۔ ہماری سڑکیں ہمارے تجربات کی زد میں ہیں۔ان تجربات کے نتیجے میں ان پر رش معمول سے کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔متعلقہ لوگ کہتے ہیں کہ تعمیر مکمل ہونے کے بعد ٹریفک کی روانی میں بہتری بھی آئے گی اور رش بھی نہیں رہے گا۔لیکن وہ سڑکیں جو تعمیر ہو چکی ہیں ، وہاں کوئی فرق کیوں نظر نہیں آتا۔سگنل فری کے لئے جو راستے بنائے گئے ہیں، ان پر مخالف ٹریفک بھی بڑی روانی سے چلتی ہے۔اس کی روک تھام کو کسی نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ٹریفک پولیس اپنے مخصوص مقاصد کے لئے کام کرتی ہے اسے عوام سے صرف لینا ہوتا ہے دینا کچھ نہیں۔ انہیں ٹریفک کنٹرول کرنا، حوصلے، برد باری، پیار سے بات کرنا اور خدمت خلق کا اندازہ ہی نہیں۔ ہر چوک میں کمرشل گاڑیاں ان کا نشانہ ہوتی ہیں جن سے ان کے سارے سسٹم کا پہیہ چلتا ہے ۔ یہی ان کا فطری ٹارگٹ ہے۔ قومی حیثیت سے ہمارے ڈوبتے اخلاقی معیار میں ان سے کیا بہتر توقع ہو سکتی ہے۔