پہلے معظم اب ظل شاہ! ہمارے ملک میں بے گناہوں کے خون کا یہکھیل نیا ہے نا ہی اس سیکہیں کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا لیکن متاثرہ خاندان میں کہرام برپا رہتا ہے۔اس سے بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان کا خون رائیگاں جاتا ہے۔معاشرے کو کوئی فرق پڑتا ہے نہ ہمارے نظام میں کوئی بہتری آ پاتی ہے‘حالانکہ کسی بھی سیاسی جماعت کے جلسے جلوس ریلیاں ایسے کارکنوں کی بدولت ہی چمکتی دمکتی ہیں۔ معظم‘ظل شاہ اور ان جیسے کتنے ہی بے لوث کارکن ملک میں تبدیلی کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں‘ان کی قربانیوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔دو چار دن سیاسی نمبر سکورنگ کیلئے شور و غوغا کے بعد ان کے نام بھی کسی کو یاد نہیں رہتے۔ ہمارے سیاسی لیڈروں اور پوری قوم کا المیہ ہیکہ یورپ کی ترقی کی داستانوں کی بغلیں بجاتے نہیں تھکتے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ان ممالک میں اگر ایسا کچھ ہو جائے تو پوری عوام اظہار یکجہتی کیلئے سڑکوں پر ہوتی ہے، موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں۔حکمرانوں‘پولیس پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے کہ انصاف فراہم کیا جائے۔ کیا پاکستان میں ایسا ہوسکتاہے؟ تاحال ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ظل شاہ لاہور کا رہائشی تھا‘ان کی بہن کے مطابق وہ عمران خان کے حد سے زیادہ دیوانے تھا اور ان کے ہر جلسے میں موجود ہوتا ۔ پی ٹی آئی کی کوئی بھی سیاسی سرگرمی ہو، ظل شاہ اپنے منفرد انداز کی وجہ سے اکثر میڈیا کے کیمرے میں بھی عکس بند کیا جاتا ۔جب سے عمران خان لاہور زمان پارک میں مقیم ہے اور کارکنوں کو بتایا گیا ہے کہ ان سے سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے‘ان کی زندگی کو خطرہ ہے‘اس وقت سے ظل شاہ زمان پارک روز جاتا تھا اوردیر رات گھر واپس پہنچتا‘وہ زمان پارک میں پی ٹی آئی کے ترانوں پر رقص ڈالتا اور اس طرح سے زمان پارک میں موجود پی ٹی آئی کے تمام کارکن اس سے شناسا تھے‘جب جب زمان پارک سے رات گئے خبر آتی کہ آج رات کسی بھی وقت عمران خان کو گرفتار کیا جاسکتا ہے تو ظل شاہ زمان پارک میں اپنے روائتی انداز میں نعرے لگاتا ہوا دکھائی دیتا۔ ظل شاہ کی عمر چالیس سال تھی‘وہ لاہور کا رہائشی تھا‘اس کا اصل نام علی بلال تھا‘وہ پاکستانی فلم ظل شاہ میں اداکار شان کے کردار سے اس حد تک متاثر ہوا کہ اس نے دوستوں کو کہنا شروع کردیا کہ مجھے ظل شاہ کے نام سے پکارا جائے۔اس طرح سے اس کا نام ظل شاہ مشہور ہوگیا‘ ظل شاہ اپنی اوائل جوانی میں ن لیگ کا بھی کارکن رہا‘وہ اسی طرح شریف برادران اور ن لیگ کیلئے پرجوش تھا لیکن آخر کار وہ ن لیگ سے متنفر ہوگیا اور اس نے تحریک انصاف کے کارکن کی حیثیت اختیار کرلی۔ظل شاہ کی بہن کے مطابق ایک موقع پر اسنے عمران خان کا راستہ روک لیا اور اس سے کہا کہ میرا بھائی آپکا اس حد تک دیوانہ ہے اور آپ کی ہر سرگرمی میں حصہ لیتا ہے اس سے ملاقات نہیں کی تو آپ نے کسی کارکن سے ملاقات نہیں کی‘اس موقع پر ظل شاہ کی عمران خان سے ملاقات ہوئی‘ظل شاہ کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ ذہنی طور پر سیدھا انسان تھا لیکن انتہائی مخلص ت۔بلاشبہ کسی بھی جماعت کیلئے ایسے بے غرض اور بے لوث کارکن ہی اس کا اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔عمران خان کو آج اس مقام پر پہنچانے والے بھی ایسے ہی کارکن ہیں‘جو اپنے قائد کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ کیا ظل شاہ کو انصاف دلانے کیلئے عمران خان ایڑھی چوٹی کا زور لگائینگے؟ کیا تحریک انصاف ظل شاہ کے لئے وہ کردار ادا کریگی جو اعظم سواتی کی گرفتاری‘شہباز گل کی گرفتاری‘فواد چوہدری اور شیخ رشید کی گرفتاریوں پر لگایا گیا بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جس شدت کی ساتھ عمران خان پر قائم مقدمات کو پی ٹی آئی لڑتی ہے‘ظل شاہ کو انصاف پہنچانے کیلئے اسی شدت کیساتھ یہ مقدمہ بھی لڑے گی؟ ظل شاہ کیساتھ یقیناً ظلم ہوا ہے‘پولیس کے مطابق اسے آنسو گیس کا شیل لگا اور وہ جاں بحق ہوگیاجبکہ عمران خان نے خود اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پہلے پولیس کو ظل شاہ پر سڑک پر تن تنہا گھونسے‘ ڈنڈے‘لاٹھیاں برساتی ویڈیو نشر کی۔اس کے بعد عمران خان کے آفیشل اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو آئی جس میں پولیس قیدی وین میں چار پانچ پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنوں کے ساتھ ظل شاہ بھی بیٹھا ہے اور یہ ویڈیو بنانے والا پی ٹی آئی کا کارکن باقاعدہ طور پر ظل شاہ کا نام لیکر اس کا چہرہ بھی دیکھا رہا ہے‘پنجاب پولیس نے اس موقع پر تحریک انصاف کے کارکنوں پر جو ظلم کیا‘ اس کے پیچھے باقاعدہ حکومت کی ایک پلاننگ تھی جس کے تحت ریلی سے چند لمحوں پہلے دفعہ144کا نفاذ کیا گیا‘ جس کے بعد نہتے کارکنوں پر آنسو گیس کے شیل برسائے گئے‘لاٹھی چارج کرتے ہوئے خواتین کی بھی تمیز نہیں کی گئی‘زہریلے پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ پولیس وردی میں ملبوس سرکاری غنڈے لوگوں کی گاڑیاں توڑتے رہے‘کیا پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کے چہروں پر چڑھے جمہوریت کے ماسک کے پیچھے اتنا ڈراؤنا چہرہ ہے؟ پاکستان میں جہاں حکمران ٹولہ آئین اور قانون کو ردی کے ایک ٹکڑے سے زیادہ کی حیثیت نہیں دیتا‘وہاں تو ایسی گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن اگر کسی مہذب جمہوری معاشرے میں ایسی گفتگو کرنے کی کوئی جسارت کرتا تو اب تک اسے مستعفی ہونا پڑجاتا یا کان سے پکڑ کر اسے حکومت سے باہر نکال دیا گیا ہوتا‘بہرحال ظل شاہ کا خون ناحق نہیں جانا چاہیے‘ جیسے یہ بھی پوسٹ مارٹم سے ثابت ہوچکا کہ ظل شاہ پر تشدد ہوا، اسکے جسم پر تشدد کے 26 نشانات تھے، جیسے حماد اظہر کے مطابق اسکے قتل کا مقدمہ عمران خان پر درج کر لیا گیا، تماشے نہیں انصاف ہونا چائیے، یہ صرف پی ٹی آئی کے ایک کارکن کی بات نہیں، ہر سیاسی جماعت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭