ہماری پولیس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ ہماری نہیں۔پی ٹی آئی کی ریلی پر تشدد ‘ کارکنوں کو زخمی کرنا اور ایک کی جان لے لینا بتاتا ہے کہ پولیس عوام کی جان بچانے نہیں جان لینے کے لئے استعمال ہو رہی ہے ۔پولیس کا یہ چہرہ 25مئی 2022ء میں بھی سامنے آیا۔2014 میں ماڈل ٹائون میں بیریئر ہٹانے کے معمولی سے واقعہ کو جان لیوا بنا دیا ،،تحریک منہاج القرآن کے 14نہتے اور پرامن مرد و خواتین کو سیدھی گولیاں مار دیں۔اسی پولیس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ دشمن دار لوگوں سے پیسے لے کر مخالفین کو مروا دیتی ہے کئی ہنستے بنستے گھر اس پولیس نے اجاڑے‘ کئی شریف لوگ اس کے کرتوتوں کے باعث بدمعاش اور ظالم بن گئے۔ایک سابق پولیس افسر مسلم لیگی حکومتوں کی بندہ مار کارروائیوں پر بات کرتا رہا ہے۔ کئی سال پہلے مرحوم ڈاکٹر مبشر حسن کا ایک انٹرویو کیا۔موضوع وفاقی بجٹ تھا۔بولے: کیا تمہیں لگتا ہے کہ بجٹ عوام کی بہبود کو پیش نظر رکھ کر بنایا جاتا ہے‘ میں نے کہا کہ مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے نفی میں سر ہلایا اور بولے: بجٹ عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے وسائل کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ہر بجٹ پر وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید اسلحہ‘ گاڑیاں اور سہولیات مل جاتی ہیں۔اس کے بدلے میں کبھی سوچا کہ قانون نافذ کرنے کے دعویدار یہ ادارے عوام کو کیا دے رہے ہیں۔عام آدمی کو کتنی عزت دیتے ہیں‘ لوگ ان کی موجودگی میں خود کو غیر محفوظ کیوں سمجھتے ہیں؟ پولیس کے رویے سے ہر کوئی تنگ ہے۔کسی گیٹ پر‘ سڑک پر‘ تھانے میں یا مصیبت کے وقت پولیس سے ٹاکرا ہو جائے تو خدا کا خوف رکھنے والے بہت کم لوگ ملیں گے۔اکثر کی نظریں آپ کی جیب اور حیثیت کو ٹٹولتی رہتی ہیں۔معلوم ہو کہ کوئی سفارش نہیں۔ رشوت نہیں دے سکتے تو’’ آپ‘‘ سے ’’تو ‘‘ پر آتے دیر نہیں لگاتے۔ پولیس فورس کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے حکم ماننا پڑتا ہے۔یہ اس کی نوکری ہے لیکن اس کے حکم دینے والے افسران پر ذمہ داری ڈال دی گئی کہ وہ کسی سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے۔یہاں حالت یہ ہے کہ سیاست تھانہ کچہری اور پٹوار کے بنا ہوتی ہی نہیں۔پاکستان کا سماج بدل چکا ہے۔لوگ اپنے حقوق اور اختیار کو پہچان رہے ہیں۔ریاست اور حکومت سے اپنے مطالبات تسلیم کرنے کا تقاضا کر رہے ہیں۔مراعات یافتہ طبقات کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ان کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ اشرافیہ اور Havesکو ہر جگہ چیلنج کرنے والے پیدا ہو گئے ہیں۔یہ چیلنج کرنے والے مارے جا رہے ہیں۔ کیا یہ امر قابل توجہ نہیں کہ حکومت کا بس ایک چہرہ ہے‘ رانا ثناء اللہ۔ بلاول بھٹو اگر اس حکومت کا حصہ ہیں تو نظر نہیں آ رہے ہیں۔رانا ثناء اللہ پنجاب کے وزیر داخلہ تھے۔شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔تب سانحہ ماڈل ٹائون ہو گیا۔اس معاملے میں پولیس اور حکومت نے پہلے دن سے بدنیتی کا مظاہرہ کیا کئی ہفتے تک ایف آئی آر درج نہ ہونے دی۔پھر انکوائری میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔جے آئی ٹی بنی تو کچھ عرصے بعد اسے ختم کر دیا۔نئی جے آئی ٹی بنی۔معاملہ ایک عدالت سے دوسری میں گیا۔اب تک سٹے آرڈر ہے۔ معلوم نہیں یہ غیر معینہ مدت کب ختم ہو گی اور کب مظلوموں کو انصاف ملے گا۔ ظلے شاہ کی عرفیت سے مشہور علی بلال عمران خان کا فدائی تھا۔علی بلال سپیشل فرد تھا۔اسے صرف محبت کا پتہ تھا۔پولیس نے اس کو پکڑا‘ ڈنڈے مارے‘ تھپڑ رسید کئے۔بتایا جاتا ہے کہ آنسو گیس کا شیل بھی لگا۔اس کے لواحقین اور پی ٹی آئی کارکنوں کے بقول پولیس تشدد سے علی بلال دم توڑ گیا۔ایک بار پھر مشکوک کھیل کھیلا گیا۔پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا۔مرضی کا پوسٹ مارٹم کرایا جس میں موت کی وجہ تشدد بتائی گئی۔ایک ویڈیو میںعلی بلال پولیس کی قیدی وین کی جالی میں سے کسی سے کہہ رہا ہے: میں عمران خان کی خاطر جان دینے کو بھی تیار ہوں۔آخر اس معصوم کی جان لے لی گئی۔ایف آئی آر کے کچھ جملے پڑھیں۔آپ کو پتہ چل جائے گا پولیس سازش کیسے بناتی ہے۔ مدعی پولیس افسر کے مطابق’’دیگر پولیس ملازمین کے ہمراہ نہر مال روڈ بسلسلہ ڈیوٹی عورت مارچ موجود ہیں کہ اطلاع ملی پی ٹی آئی کے تین چار سو کارکنان جو مسلح ڈنڈے سوٹے اور پتھر سے لیس ہیں پرتشدد ہجوم کی صورت میں آ رہے ہیں اور کسی تخریب کاری کا ارادہ رکھتے ہیں… یہ لوگ حکومت کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے اور قومی سلامتی کے اداروں کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ ہماری قیادت عمران خان‘ حسان نیازی‘ فرخ حبیب‘ فواد چودھری ‘ حماد اظہر‘ محمود الرشید‘ اعجاز چودھری وغیرہ نے ہمیں ٹارگٹ دیا ہے کہ ہم حکومت اور اس کے اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔‘‘ ایف آئی آر میں اپنے مخصوص افسروں اور اہلکاروں کے زخمی ہونے کے بعد لکھا کہ ’’پی ٹی آئی کارکنان کے شدید پتھرائو سے ان کے اپنے ہی ساتھی مضروب ہو کر گر گئے… جن میں سے ایک کارکن جاں بحق ہو گیا ہے… سارا واقعہ خلاف قانون پی ٹی آئی کی متذکرہ بالا قیادت کی ایما اور اکسانے پر باہم ہم مشورہ ہو کر اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت روڈ بلاک کر کے پولیس افسران و ملازمین پر جان لیوا حملہ اور اس دہشت گردی کے ذریعہ پایا گیا۔‘‘ ایف آئی آر کا متن بتاتا ہے اسے کسی ایسے منشی نے لکھا جو پولیس کی جعلی کارروائیوں کا جواز پیش کرنے میں ماہر ہے ،کچھ لوگ ایک وزیر کو منشی سمجھ رہے ہیں ۔اقوام متحدہ اور امریکہ تک نے پاکستان میں انسانی حقوق اور سیاسی آزادیوں پر تشویش کا اظہار کر دیا ہے ۔حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حالات کو کس رخ پر بڑھاوا دے رہے ہیں؟علی بلال کا خون تو مقدس ہو چکا۔پولیس کے بارے میں کیا رائے ہے؟