مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی میں محبت ہوں محبت کو بچا لے کوئی میں سمندر ہوں میری تہہ میں صدف ہے شاید موج درج موج مجھے آ کے اچھالے کوئی انسان کی خواہشات مگر کب پوری ہوتی ہیں اور خواہشات کا آرزو بن جانا بھی ایک حقیقت ہے۔اپنے اردگرد کی دنیا کی خبر لینا سب کو نصیب کہاں کہ شرف کی بات تو یہی ہے یہ صرف شاعری کہہ سکتا ہے کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا ۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس وقت سب سے بڑی خبر عمران خاں کی گرفتاری کی ہے چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے رسم پختہ ہو جائے تو لوگوں کی عادت بن جاتی ہے میں کسی کی طاقت اور نخوت کوچیلنج نہیں کر رہا اور نہ ہی خان صاحب پر عائد الزام کی تردید کروں گا کہ قانون اپنا راستہ بناتا ہے مگر سچ سے آنکھ کون چرا سکتا ہے اور اگر آپ کے ہاتھ میں قلم امانت ہے ۔سوال یہ آج کا نہیں کہ اب تو یہ کروڑ پتی والا سوال بن چکا کہ کیا چند لوگ ہی ستر سال سے ہمارے سپید و سیاہ کے مالک بنے ہوئے ہیں: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشہ بنا دیا لوگ رفتہ رفتہ تنگ آ چکے ہیں اور یہ زہر کہ جسے ردعمل کہتے ہیں یا نئی سوچ نسل درنسل منتقل ہوتا ہوتا اب بہت ہی شدت اختیار کر چکا ہے جب سے نئی نسل جو کہ تعلیم یافتہ ہی تھی سیاست میں آئی ہے شعور نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا ہے۔یہ اپنی جگہ درست کہ مفاد پرست جاہل اور جعلی ڈگریوں والے نمائندگان مصلحت کی چادر اوڑھ کر ذلت کو طاقتوروں کا دم بھرتے رہے۔ اچانک وہ اشعار یاد آ گئے جو کبھی میں نے بے نظیر کی شہادت پر کہتے تھے: کس نے لہو گرا کے مٹایا نشان بھی سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی حاکم نے اپنے خوف سے اس کو مٹا دیا تلوار بنتی جاتی تھی اس کی زبان بھی ہاں ہاں مجھے ایک اور شعر بھی یاد آیا کہ جس میں میں نے اپنے تئیں اظہار کر دیا تھا: خود مصنف نے اسے لا کے کہیں مار دیا ایک کردار جو کردار سے آگے نکلا اب کے تو کچھ بھی پردہ اخفا میں نہیں رہا۔ی کوئی بھی ان کی آشیر باد کے بغیر نہیں آیا۔جونہی کسی نے چھتری ہٹائی تو اس بالک کے پائوں دھوپ سے تپتی زمین پر جلنے لگے۔ مگر عام دانش یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ آخر یہ تماشاہ کیا لگا ہوا ہے جو گھاگ لوگ تھے انہیں پتہ تھا کہ یہ بے عزتی چند دنوں کی بات ہے پھر ان کی باری آ جائے گی ۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک اور طرح کا نوجوان متعارف ہوا جو سوشل میڈیا کی پراڈکٹ تھا مگر وہ ذھن رکھتا تھا کہ سوچے آخر ستر پچھتر سال سے کیا کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ دوسرا یہ ہوا کہ ان نوجوانوں کا تعلق استحصالی طبقہ کے ساتھ ہے کہ انہوں نے بھی ذرا آزادانہ سوچنا شروع کر دیا وہ ان بھیڑ بکریوں کی طرح نہیں تھے جو پیروں فقیروں کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چل پڑتے ہیں یا رائج منافقت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ردعمل نواز شریف سے زیادہ شدت اختیار کر گیا اس سے یہ مراد نہ لی جائے کہ میں کوئی نواز شریف کا حامی ہوں کہ بے دھڑک کہہ رہا ہوں کہ سیاست کو تجارت بنانے والوں کو چھوڑ کر ہی تو ہم جیسے خان کے ساتھ آئے تھے۔خیر یہ ایک الگ معاملہ ہے مگر غصہ تو نواز شریف کو بھی آتا تھا ہاں یہ بات تکلیف دہ تھی کہ اسے نکالنے کے لئے کوئی معقول بہانہ تو ہوتا۔ اس وقت بھی میں کوئی خان صاحب کی سیاست کو کور دینے کے لئے نہیں لکھ رہا۔ خان صاحب تو بس نظام کو بے نقاب یا بے لباس کر گئے۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ سوال بھی درمیان میں لے آئے کہ اصل جنگ تو امریکہ اور چین کی ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایک سی پیک کے ساتھ اور دوسرا سی پیک کو پیک کرنے والا تھا۔ یہ ایشو غلط بھی نہیں مگر اصل اسوال یہ ہے کہ یہ سارے معاملے جمہوریت کے تحت لوگوں یعنی عوام کے نمائندے کیوں حل نہیں کرتے کہ کون سا قدم قوم کے حق میں ہے اور کون سا وطن کے خلاف۔ تاہم غلطیاں تو اپنی ہوتی ہیں اور یہ غلطیاں کروانے والے بھی انہی کے ساتھ چھوڑے جاتے ہیں۔القادر ٹرسٹ کیس میں خان صاحب کو نیب نے پکڑا ہے۔ اب اس نیب کی انکوائری کو بشریٰ بی بی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے بہرحال یہ طے تھا کہ کسی نہ کسی حوالے سے خان صاحب کو پکڑنا تھا کئی جگہ غلطیاں ہوئیں خان صاحب کو محتاط زبان استعمال کرنا چاہیے تھی کہ وہ تو چاہتے تھے کہ حالات بگڑیں کیونکہ اس وقت بھی صورتحال ایسی ہے کہ انتخاب میں شاید ہی کوئی خان صاحب کے سامنے ٹھہر سکے۔ ایک مزے کی بات ہے کہ خان صاحب اس بات پر معترض ہیں کہ پرویز الٰہی کی حکومت میں حملے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی وہ تو پرویز الٰہی نے اچھا کیا وگرنہ اگر وہ ایف آئی آر درج ہو جاتی تو خان صاحب کو اقدام قتل کے ثبوت دینا پڑتے۔ اب جو صورتحال پیدا ہونے جا رہی ہے وہ عوام کے لئے بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ پہلے ہی کہیں حکومت کی رٹ نظر نہیں آتی۔تجارتی لوگوں نے لوٹ مار مچا رکھی ہے مثلاً کچھ دوائیاں ہیں جو ذہنی مریضوں کو روزانہ کی بنیاد پر کھانا ہوتی ہیں مارکیٹ سے غائب ہیں۔ کئی ماہ ہو گئے پتہ نہیں۔ یہ بے شرم لوگ انسانی ہمدردی سے خالی ہیں ۔ذہنی مریضوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے کہ موجودہ حکومت نے شرمناک حد تک ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب یہ اور بھی کھل کھیلیں گے ۔عوام اور خصوصاً بے روزگار نوجوان بہت غصے میں ہے۔اب بھی حل صرف انتخابات ہیں جو آگ لینے آئے تھے مالک بن بیٹھے ہیں۔ایک شعر کے ساتھ اجازت: دونوں جانب تھیں مشعلیں صاحب شہر کا شہر جلنے والا تھا ٭٭٭٭٭