جے شنکر نے اس کیلئے ابھی تک کانگریس پارٹی یا گاندھی خاندان کو معاف نہیں کیا ہے۔ ایک طرح سے لگتا تھا کہ جے شنکر کا کیریر اب ختم ہوگیا ہے۔ مگر جنوری 2015 کو جب امریکی صدر بارک اوبامہ بھارت کا دورہ ختم کرکے طیارہ میں سوار ہوگئے، تو وزیر اعظم نریندر مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جے شنکر کو سیکرٹری خارجہ بنایا دیا۔ وہ صرف دو دن بعد ریٹائرڈ ہونے والے تھے۔ جے شنکر اسوقت امریکہ میں بھارت کے سفیر تھے اور اوبامہ کے دورہ کے سلسلے میں نئی دہلی آئے ہوئے تھے۔انہیں فی الفور رات کو ہی فارن آفس میں رپورٹ کرنے اور عہدہ سنبھالنے کیلئے کہا گیا۔ جے شنکر کو خارجہ سیکرٹری کے عہدے پر فائز کرنے کی کانگریسی لیڈران نے اسلئے مخالفت کی تھی کہ ان کے مطابق ایک انتہائی امریکہ نواز آفیسر کو اس اہم عہدہ پر فائز کرانے سے بھارت کی غیر جانبدارانہ شبیہ متاثر ہوگی۔ وکی لیکس فائلز نے جے شنکر کی امریکہ کے ساتھ قربت کو طشت از بام کردیا تھا۔ کانگریسی رہنماوں نے انتباہ دیا تھا کہ جے شنکر کی تعیناتی سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے، جو جلد ہی صحیح ثابت ہوا۔ کیونکہ ستمبر 2015میں جب نیپال کی کلیدی سیاسی جماعتوں نے آئین سازی میں بھارتی مداخلت پر اعتراض کیا، تو اگلے چھ ماہ تک ان کی ایما پر اس ملک کی معاشی ناکہ بندی کی گئی۔ جس سے ان دونوں ممالک کے تعلقات اس حد تک خراب ہو گئے ،کہ وزیر اعظم کے دورہ کے باوجود ابھی تک پٹری پر نہیں آر ہے ہیں۔ 2004سے 2007تک جے شنکر فارن آفس میں امریکہ ڈیسک کے انچارج تھے۔ ان کا نام بار بار امریکہ سفارتی کیبلز میں آیا ہے۔ 25اپریل 2005کو دہلی میں چارج ڈی آفییرز رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ جے شنکر نے ان کو بتایا ہے کہ حکومت بھارت نے اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں کیوبا کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ اسی طرح19 دسمبر 2005 کو ایک دوسری کیبل میں امریکی سفارت خانہ کا کہنا ہے کہ جے شنکر نے ان کو خارجہ سیکرٹری شیام سرن کے دورہ امریکہ کے ایجنڈہ کے بارے میں معلومات دی ہیں۔ امریکی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں میں بھارتی موقف کی جانکاری خارجہ سیکرٹری کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی۔ مگر سب سے زیادہ ہوشربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانہ نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں بھارت کے سفیر جے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویہ کو لگام دینے کیلئے امریکہ کی معاونت کرنے کی پیشکش کی ہے۔ یعنی ایک طرح سے وہ نئی دہلی میں حکومت کی رضامندی کے بغیر امریکہ کے ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ایک اور کیبل میں اپریل 2005میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانتانامو بے کے معاملے پر بھارت ، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دیگا، جنہوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ اسکے علاوہ جے شنکر نے ایک نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا ، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی جانکاری تھی، جو بھارتی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔ جے شنکر بھارت کے مشہور اسٹریجک امور کے ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے 1977میں فارن آفس جوائن کی۔ معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق جے شنکر کی کابینہ میں شمولیت سے بھارت کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ ان کی تعیناتی بھارت کی اسٹریجک آٹانومی کے حوالے سے خاصی اہم ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سرابراہ کا عہدہ سنبھالا۔ اس حوالے سے بھارتی فضائیہ کیلئے ایف۔16طیاروں کی خریداری کیلئے امریکی فرم لاک ہیڈ مارٹن کیلئے وکالت کا کام کر رہے تھے۔ لاک ہیڈ مارٹن کو کنٹریکٹ ملنے سے ٹاٹا کو ان دیکھ ریکھ ،پرزے سپلائی کرنے اور بھارت میں ان طیاروں کو تیار کرکے کا کام مل جاتا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1980میں واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانہ میں پوسٹنگ کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش شروع کر کے ان کی ایک دوست کے روپ میںشناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریر کو آگے بڑھانے میں بلاواسط طور پر خاصی مدد کی۔ من موہن سنگھ نے جب ان کو امریکہ ڈیسک کا انچارج مقرر کیا تو جوہر ی معاہدہ کو انجام تک پہنچانے میں امریکہ نے خاصی رعایت سے کام لیا۔ بعد میں امریکہ میں بطوربھارتی سفیر کے ہوتے ہوئے انہوں نے مقامی بھارتی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرواکے انکا دل جیت لیا۔ اس مثلث کے اہم ترین رکن وزیر داخلہ امیت شاہ ہیں، جوحکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے حکمت عملی ساز اور آئندہ وزیر اعظم کے بطور بھی دیکھے جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے، کہ ایک دہائی قبل ہم نیوز رومز میں تفریح کے طور پر امیت شاہ (جو ان دنوں جیل میں اور بعد میں تڑی پار کردیے گئے تھے)کے وزیر داخلہ بننے کی پیش گوئی کرکے ہنسی اڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ 2019میں یہ مذاق بالکل حقیقت کا روپ اختیار کریگا۔مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کا رشتہ تین دہائی سے زیادہ پرانا ہے۔ 2001میں مودی کے گجرا ت کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ کو آسان کرنے کیلئے شاہ نے پارٹی میں ان کے مخالفین ہرین پانڈیا اور کیشو بائی پاٹل کو ٹھکانے لگانے میں اہم رول ادا کیا۔ ہرین پانڈیا کو تو قتل کیا گیا۔ گجرات میں شاہ کو وزارت داخلہ کا قلم دان دیا گیا تھا اور ان کا دور وزارت کئی پولیس انکاونٹروں کیلئے یاد کیا جا تا ہے۔ قومی تفتیسی بیورو نے تو انکو سہراب الدین اور اانکی اہلیہ کوثر بی بی کے قتل کیس میں ایک کلیدی ملزم ٹھہرایا تھا۔ اسکے علاوہ 19سالہ عشرت جہاں کے اغوا اور بعد میں قتل کے الزام میں بھی ان کے خلاف تفتیش جاری تھی۔ 2013میں ان کی ایک ریکارڈنگ میڈیا میں آئی تھی ، جس میں وہ ایک دوشیزہ کا فون ٹیپ کرنے اور اسکی نگرانی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ وہ دوشیزہ ان کے باس کو پسند آگئی تھی۔ 2014کے عام انتخابات میں مودی نے شاہ کو سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا تھا، جہاں اس نے بی جے پی کوسب سے زیادہ سیٹیں دلا کر پارٹی کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔ اس کامیابی کے بعد ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔ پاکستانی حکمرانوں اور افسروں کی کشمیری راہنمائوںکے ساتھ ملاقاتوںپر پابندی لگانا اور 5اگست 2019کو آئین کی دفعہ 370کے مندرجات کوکالعدم کرانا اور دفعہ(A) 35 کو ختم کرنا، تاکہ غیر ریاستی باشندوں کو کشمیر میں بسایا جا سکے، امیت شاہ کے ہی کارنامے مانے جاتے ہیں۔ ان کا پلان کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میںاب بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بناکر ایک ہندو وزیر اعلیٰ کو مقرر کرنا ہے۔ امیت شاہ کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوںکو بے اثرکرناہے۔۔ ان کا خیال ہے کہ حلقوں کی نئی حد بندی سے بی جے پی اس خطے کی اسمبلی میں بڑی پارٹی کے طورپر ابھر سکتی ہے اور بعد میں ہم خیال ارکان کی حمایت سے براہ راست حکومت بھی بنا سکتی ہے۔ ان کے وزار ت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد ہی تو کشمیر کی شناخت اور تشخص خطرے میں پڑ گیا تھا۔ پاکستان کی داخلی صورت حال بھی ان کے عزائم کو حوصلہ دیتی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہندو انتہا پسند وں کے دیرینہ خوابوں کے پورا ہونے کا موزوں وقت آگیا ہے۔ حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹیلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اس مہم جو مجلس ثلاثہ نے مودی حکومت کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اس کے پاس آپشن انتہائی محدود ہیں۔ اس صورت حال میں بات چیت کی بحالی تقریباً ناممکن نظر آرہی ہے کیونکہ جہاں نئی دہلی کے لئے سخت گیر موقف سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں وہاں پاکستان کے لئے کشمیرکے حوالے سے اختیارکردہ موقف سے پیچھے ہٹنا سیاسی اور سفارتی خودکشی سے تعبیر ہوگا۔ تعطل اور جمود کی یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ جب برصغیرکی ان دو جوہری طاقتوں کے درمیان کوئی رابطہ ہی نہ ہوگا تو اس کے نتیجے میں ماحول مزید کشیدہ بن جائے گااور وہ کشیدگی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ کہیں یہ مجلس ثلاثہ نہ صرف بھارت کو بلکہ پورے خطے کو ہی گرداب میں پھنسانے کا موجب تو نہ بن جائے۔