پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماسینیٹر رضا ربانی ایک دفعہ تب افسردہ نظر آئے تھے جب انہوں نے دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے تناظر میں محدود مدت کے لیے قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیا تھا یا پھر اب جب عالمی مالیاتی ادارے کے وفد نے سیاسی پارٹیوں کی قیادت سے ملک کو دیے جانے والے تین ارب ڈالر پر اتفاق رائے کے لیے ملاقات کی۔انکا خیال ہے کہ یہ ملاقاتیں ملک کی سیاسی خود مختاری میں مداخلت ہیں۔انکی سیاسی سمجھ بوجھ اور بصارت پر کوئی دو رائے نہیں لیکن انکی اس مسئلے کی طرف توجہ دلانے میں کوئی حرج نہیں جو سیاست اورمعیشت ہی نہیں بلکہ ملکی سلامتی کے لیے بھی سر درد بن چکا ہے۔ ایک لحاظ سے تو خیریت ہی رہی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں، بشمول بظاہر مظلوم حزب اختلاف نے عالمی مالیاتی ادارے کی طرف حکومت کو ملنے والے قرضے پر اتفاق رائے کیا ہے۔ اس سے ایک تو ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ دوسرے،وہ امکانات بھی پیدا ہوگئے ہیں کہ اب جمہوریت کے حد درجہ زوال پر بھی توجہ دی جاسکے جو کہ سیاست کو ہی نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کو بھی گْھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ جمہوریت تو ہے لیکن نہ ہی تو یہ لوگوں کے بنیادی حقوق (خوراک،صحت،صاف پانی،تعلیم ) کی پاسداری ہوپارہی ہے اور نہ ہی انکی قوت خرید کو مستحکم رکھنے کا بندبست۔ ایک چھوٹا سا طبقہ معیشت اور سیاست دونوں پر قابض ہے تو عوام بھوک اور بماری کی چکی میں پس کررہ گئے ہیں۔ ماہرینِِ سیاسیات کا کہنا ہے کہ جمہوری خسارہ،جس پر قابو نہ پایا جائے،تو ملک آمریت کی گود میں چلا جاتا ہے۔انہوں نے اسکی علامات بھی بتائی ہیں اور اسکی شدت کو ماپنے کا طریقہ بھی۔ پاکستان کے حالات بڑے واضح ہیں اور تشویشناک بھی۔ جمہوریت کی علمبردار پارٹیاں اقتدار میں ہیں۔احتساب غائب اور بنیادی حقوق مفقود۔شہری آزادیاں، بشمول حقِ اظہار رائے اور حق اجتماع،دونوں ہی مفقود ہیں۔ پارلیمان نامکمل ہے کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی یہاں سے غائب ہے۔ دو صوبوں میں غیر نمائندہ حکومتیں بیٹھی ہیں کیونکہ وہاں اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد الیکشن کمیشن وقت پر انتخابات کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ان انتخابات کے مطالبے پر اپوزیشن پر غلامانہ دور کے قوانین کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اسکے ہزاروں کارکنان جیل میں ہیں تو مرکزی سطح کے راہنما اپنی جان خلاصی اپنی پارٹی سے لاتعلقی میں دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد اور سب سے بڑا صوبہ مقامی سطح کی نمائندہ حکومتوں سے بھی محروم ہے اور اگر یہ دوسرے صوبوں میں موجود ہیں تو کمزور اور لاغر۔ پاکستان میں جمہوری خسارہ تب سے ہی موجود ہے جب سے یہ ملک وجود میں آیا تھا۔ ایک سیاسی پارٹی نے اس کے لیے تحریک چلائی تھی اورانتخابی عمل سے گزرنے کے بعد ہی اس کے قیام کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ لیکن اپنے مقصد کے حصول کے بعد سے ہی یہ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی کہ اس نے تحریک چلاتے وقت کوئی قابل عمل معاشی و سیاسی پروگرام نہیں دیا تھا، جو دیا تھا وہ قابل عمل نہیں تھا۔ سرکاری (اسٹیبلشمنٹ) سرپرستی میں بار بار اسکو اسکے پائوں پر کھڑا کیا گیا لیکن اقتدار ختم ہوتے ہی پھر سے معدوم ہوجاتی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی بنائی گئی لیکن اسکا بوریا بستر بھی انیس سو ستتر میں لپٹ گیا اور اسکے بانی کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اس سے آگے نوے کی دہائی ہے جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں چپقلش کے نذر ہوئی اور ملک میں ایک بار پھر مارشل لا لگ گیا۔ پاکستان میں جمہوریت کی تازہ لہر کا سہرا پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان امریکہ کی وساطت سے ہونے والے میثاقِ جمہوریت کو جاتا ہے جسکی وجہ سے ان دو پارٹیوں نے اپنی دہائی بھر کی دشمنی کو بھلا کر نظام حکومت کو مل جل کر چلانے کا فیصلہ کیا۔ پارلیمان بالادست، صوبے خود مختار اور عدلیہ آزاد تو ہوئی لیکن اٹھارویں ترمیم سے وابستہ شرط کوبھول گئیں : سیاسی، مالیاتی اور انتظامی طور خودمختار منتخب مقامی حکومتیں۔ خلا پیدا ہوا تو تیسری پارٹی میدان میں آئی،جس نے دونوں پرانی پارٹیوں کو پچھاڑ دیا۔ بجائے کہ کسی سمجھوتے کی راہ نکلتی،ملک کے پانچ سال سیاسی منافرت کے بھینٹ چڑھے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ مہنگائی، معاشی بحالی اور بد امنی۔ جمہوری خسارہ جسکی سنگینی کو سول حکومتیں تک نظر انداز کرتی رہی ہیں، کی بنیاد ملک کا معاشرتی ڈھانچہ بھی ہے اور غلامانہ دور کے قوانین بھی جو لوگوں کی حقیقی اور فطریوں آزادیوں کو سلب کرتے ہیں۔ ٹیکسوں کا نظام غریب کی کھال اتارتا ہے اور امیروں کو الٹا مراعات دیتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب تاریخ کے پہے کو الٹا گھمانا نہیں تو اس کی سمت کو درست کرنا ضرور تھا لیکن یہ کیا کہ جمہوریت اشرافیہ کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ نہ ڈائیلاگ کی روایت اور نہ ہی احتساب۔ سچ پوچھیں تو سیاسی پارٹیاں آمریت پرست طبقوں کی یرغمال بن چکی ہیں۔ مقامی حکومتیں نہیں ہیں اور انتخابی نظام ایسا کہ مخصوص طبقات سے وابستہ افراد ہی پارلیمان میں پہنچتے ہیں۔ یوں پارلیمان، جسے انسانی حقوق کا محافظ ہونا چاہیے صرف اشرافیہ کے مفادات پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ پاکستان کے مخصوص حالات کے تناظر میں جمہوری خسارے کے خاتمے کی طرف اٹھایا گیا ہر قدم ملک کی تقدیر بدلنے میں حیرت انگیز طور پر مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ ابتدا پنجاب میں مقامی حکومتوں کے قیام سے ہوسکتی ہے۔ ملک میں شفاف عام انتخابات عالمی برادری میں ملک کا قد کاٹھ بڑھاسکتے ہیں۔ جمہوریت کو امن و خوشحالی کا زینہ بنانے کے لیے الیکشن کمیشن یہ بات یقینی بنائے کہ سیاسی پارٹیوں کی اندر آمریت کا خاتمہ ہو اور انتخابی عمل شفاف ہو تاکہ پارلیمان لوگوں کا واقعتاً نمائندہ ادارہ بن پائے۔ ان اصولوں کی روشنی میں میثاق جمہوریت کی توثیق ہوسکتی ہے جس میں تمام بڑی سیاسی پارٹیاں، بشمول تحریک انصاف، شامل ہوں۔ آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ایسا عمل ثابت ہوسکتا ہے جس سے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھایا جاسکتا ہے کیونکہ بنیادی حقوق کی فراہمی سے لوگوں کی صدیوں سے سلب فطری آزادی بحال ہونگی، حب الوطنی فروغ پائے گی اور پائدار معیشت کی بنیاد ڈلے گی۔ مطلب، ملکی حالات کو سدھارنے کا راستہ سیاست ہے۔ جو ملکی سلامتی کے تقاضوں کو پورا کرسکتی اور معیشت کو راہِ راست پر رکھ سکتی ہے۔ جمہوری تناظر میں اسکا محور انسانیت کی توقیر اور اسکے لیے لازم حقوق کی پاسداری ہے۔ اب اگر اسے چند طبقات کی خواہشوں کے تابع کردیا جائے تو نہ معیشت بچتی ہے اور نہ ہی ملکی خود مختاری۔ سیاست ٹھیک کردیں، یعنی جمہوری خسارے پر قابو پالیں، معیشت بھی اٹھ جائیگی اور معاشرت بھی۔