عالیجاہ رحم شہری ریاست کی ملکیت ہوتا ہے یا ریاست شہری کی۔ ایک نظر سینتالیس میں بے سروسامان لٹتے پٹتے کٹتے ہوئے قافلوں پر بھی ڈالیں جو اپنے پیاروں کو بے گورو کفن چھوڑ آئے ہیں ،عالیجاہ اس ماں کا دکھ بھی سمجھیں جس نے روٹی اس لیے نہ کھائی کہ اس کا بیٹا ہجرت کے دوران روٹی روٹی کرتے مر گیا وہ تو روٹی کو دیکھ کر ہی رونے لگ جاتی تھی کوئی جائے اور اس ملک کی اشرافیہ کو کراچی سے لاہور یا لاہور سے کراچی ایسے ہی لے کر جائے جیسے وہ آئے تھے وہ جب یہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ کسی کی ماں نہیں کسی کی بہن نہیں کسی کا بھائی نہیں کسی کا باپ نہیں اس سیارے کی سب سے دردناک ہجرت جسکی کوئی تفصیل ہی نہیں لیاقت علی خان سے لے کر شہباز شریف تک کا سفر کتنا خوش کن ہے اس پر کیا لکھیں ۔ مصطفی زیدی بولے:- کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتہ دل دہلتا ہے جو گرتا ہے سڑک پر پتّا- پھر بولے- اپنی آسائش ِ یک عُمر ِ گریزاں کے لیے سب کو تاراج کیا مگر تم نہ جیے- عالیجاہ خبر ہے اس ماں کی جس نے اپنا زیور بیچ کر بیٹا پڑھایا اور اسے نوکری نہ ملی اور اب وہ گھر بیچ دے تاکہ بیٹا ملک چھوڑ جائے عالیجاہ خبر ہے کبھی اس تندور والے کے پاس جایے وہ آپ کو بتائے گا کہ لوگ اب اپنی مرضی کا سالن پکانے سے گئے کیسے کیسے لوگ اس سے روز سالن اور روٹیاں لے کر جاتے ہیں آگے گھروں میں میٹھی سوغات بنتی تھی مہینوں گزر جاتے ہیں لوگ اس سے بھی محروم ہوچکے عالیجاہ ان بچوں سے پوچھیے جن کے سامنے ان کے ماں باپ بیماری سے تڑپ رہے ہیں ان کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں اور پھر کیسے کرب سے وہ انہیں شہر خموشاں میں چھوڑ آتے ہیں۔ اب جو کوئی مر جاتا ہے لوگ افسوس نہیں کرتے دل میں سوچتے ہیں اچھا ہوا چلا گیا عالیجاہ پہلے غریب اور سفید پوش تھے اب تو اس سے اوپر والے بھی بے بسی کا ماتم کر رہے ہیں۔ عالیجاہ تعلیم اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ ڈاکٹر انجینئر بننا ایک خواب بن چکا ہے جو بن چکے ہیں انہیں نوکریاں نہیں مل رہی ہیں۔ عالیجاہ چالیس پچاس ہزار میں گھر چلا کر دکھائیں یا سوچ ہی لیں کیسے چلتا ہوگا۔ عالیجاہ 201 یونٹ کا بل 6500 روپے ہوگیا ہے گیس تو آتی ہی نہیں دودھ دو سو روپے کلو دہی 350روپے دال مونگ 400 سو روپے کلو ماش چھ سو روپے دال مسر 800 روپے دال چنا 400 روپے گھی پیکٹ 500 روپے آٹا 150 روپے چینی 125 روپے چائے پیکٹ 400 روپے گوشت چکن 600 روپے مٹن 1800 روپے بیف 800 انڈہ 300 روپے درجن۔ عالیجاہ ایک یا ڈیڑھ لاکھ تنخواہ یا آمدن والا بھی کیسے گزارا کرے گا عالیجاہ بسوں ویگنوں کے کرایوں پر غور فرمائیں ایک شہر سے دوسرے شہر جانا کتنا دشوار ہو چکا ہے۔ چھوٹے بچوں سے لے کر سترہ سال کے نوجوانوں کے لاغر جسم اور ہڈیاں خوراک کی عدم دستیابی کا نوحہ نہیں تو اور کیا ہے۔ عالیجاہ طلاق کی شرع میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے۔ معاشی بحران نے سماجی رویے تباہ کرکے رکھ دیے ہیں گھروں میں لڑائیاں ناچاقیاں اور بعد ازاں علیحدگیاں کتنی نسلوں کو کھا جائیں گئیں۔ عالیجاہ عمرہ تین لاکھ اور حج پندرہ لاکھ میں ہو چکا ہے غریب تو یہ فرض ادا کرنے سے گیا، یہ سہولت بھی اب اشرافیہ کے لیے رہ گئی ہے۔ عالیجاہ اس شہری کا کون حساب دیگا جسے معلوم تھا کہ بارش آئی تو اسکی چھت گر جائے گی مگر گنجائش ہی نہیں تھی اور پھر بارش آئی تو اسی چھت نیچے پورا خاندان دنیا چھوڑ گیا۔ عالیجاہ لوگ بیماریوں سے نہیں دکھوں سے مر رہے ہیں۔ معاشی بحران نے ان کی خواہشات کا گلا گھونٹ دیا شہر خموشاں میں میت نہیں حسرتیں دفن کر کے آتے ہیں۔ عالیجاہ صاحب ثروت لوگوں کی کوٹھیوں کے باہر خیرات کے لیے لگی ہوئی ہے۔ لائنوں کو ہی دیکھ لیں عالیجاہ دنیا کے ہر ملک پر اس سے بھی بدتر وقت اور حالات آئے لاکھوں لوگ مرگئے سیاسی بحران ہر جگہ ہوتے تھے اور آج بھی ہیں غور فرمایئے وہ ان خوفناک بحرانوں سے نکلے کیسے انہوں نے سیدھے راستے کا تعین کیا اورکیا منصوبہ بندی کی دنیا مثالوں سے بھری پڑی ہے، اس ساری صورتحال کا پہلے ادراک کیجیے پھر تدارک میرے خیال میں پہلے انہوں نے ریوڑ ہجوم کو قوم بنایا پھر صفر سے شروع ہوئے اور آج دنیا میں ایک مقام حاصل کرگئے۔ عالیجاہ کیسے انہوں نے ادارے مضبوط کیے اور کیسے اپنے آپ کو پرکشش بنایا کہ دنیا اپنا سرمایہ انکے ہاں لے گئی ہم نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا کا پرکشش ملک ہمارے پاس ہے کاش ہم اسے سیاحت کے قابل بناتے کاش اسے زرعی اور انڈسٹریل بناتے کاش ڈیم بناتے دنیا کی تیز ترین ٹرین سروس اور بہترین ائیرلائنز بناتے ہرآدھ منٹ کے بعد وہاں جہاز اترتے اور جاتے ہماری بندرگاہوں پر بھی رونق ہوتی۔ عالیجاہ صرف پاکستان ناگزیر ہے صرف پاکستان۔