وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اپنے حالیہ دورہ ٔ از بکستان کے موقع پر بخارا اور ملتان کو’’سسٹر سٹیز‘‘قرار دینے کی تجویز سے اتفاق کیا،ان دونوں شہروں کے بہت قدیم علمی اور تہذیبی روابط ہیں۔روحانیت اور علوم و معارف کا باہمی ایکسچینج پروگرام قدیم تاریخ اور روایات کو تازہ کرے گا،دہلی سلطنت ِ ہند کا صدر مقام ہونے کے سبب مرکزی حیثیت کا حامل تھا،دہلی کے بعد اہم ترین شہر ملتان تھا،جو اپنے علم وفضل اور تمدن و کلچر کے سبب صدیوں سے اہمیت کا حامل رہا،دہلی چشتی صوفیاء کا مرکز جبکہ ملتان سہروردی بزرگوں کی آماجگاہ تھی،حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ کی خانقاہِ معلی خطّے میں سہروردی سلسلے کا سب سے نمائندہ مرکز تھی ۔ آپؒ ہی وہ ہستی ہیں،جو اوائل دور میں اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے بخارا میں تشریف فرما ہوئے ، جہاں سادات بخارا سے آپؒ کے مراسم قائم ہوئے ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد صاحب عوارف المعارف حضرت الشیخ شہاب الدین سہر وردیؒ سے فیوضات ِ باطنیہ کے اکتساب کے لیے حاضر ہوئے ، روحانی فیضیابی کے بعد، ملتان میں مرجع خلائق اور ایک انقلاب آفریں عہد کے امین قرار پائے ۔ آپؒ کے تصدق سے ملتان کئی آفات سے محفوظ ہوا، جس میں تاتار کا فتنہ بطور ِ خاص قابلِ ذکر ہے ۔ سمر قند و بخار ا--- اسلامی تہذیب و تمدن اور علوم و معارف کا مرکز، دریائے درا فشاں کی زیر یں گزر گاہ پر ، ایک بڑے نخلستان میں واقع ہوا، جو کہ آج کل وسط ایشیاء کی ریاست از بکستان کے مشہور شہر ہیں ۔ بخارا پر تاتاریوں نے یلغار کی ،شہر کو نیست و نابود کردیا،مسجدیں ویران اور مدارس نذر ِ آتش ہوئے،کتب خانے تباہ اور دانشگاہیں برباد۔اسی ہنگامے میں بخارا کی مقتدر و معتبر ہستی سیّد جلال الدین سرخ پوش میر حیدر بخاری ؒ یہاں سے نقل مکاں ہوئے،ایران،مشہد سے ہوتے ہوئے ، ابتدائی قیام بھکر اور پھر ملتان وارد ہوئے،جہاں حضرت بہا ء الدین زکریا ملتانیؒ کے ہاں قیام فرما یا۔ بر صغیر میں نقوی سادات کے دو قبیلے معروف اور معتبر ہیں ، ایک بخاری اور دوسرا بھاکری ۔ بخاری خاندان کے سرخیل سیّد جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ اور بھاکری سادات کے چیف سیّد بدر الدین بھاکریؒ ۔ ہر دو شخصیات کے مزار پُرانوار خطّہ پاک اوچ شریف میں ہیں ۔ ہر دو کا سلسلہ نسب امام علی نقی الہادیؒ سے چند واسطوں کے ذریعے متصل ہوتا ہے ۔’’بھاکری ‘‘در اصل بھکر سے بنا ہے ۔ جو رو ہڑی سے متصل ہے ۔ سیّد بد ر الدین بھکری ؒ یہاں کی بلند پایہ اور مرضاد ہستی تھیں ۔ آپؒ کے جدِّ امجد سیّد محمد بن شجاعؒ چھٹی صدی ہجری میں مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے یہاں سکونت فرما ہوئے ، سیّدبدر الدین ؒ کی یکِ بعد دیگرے دو صاحبزادیاںسیّد جلا ل الدین بخاریؒ کے عقد میں آئیں ، آپؒ کا خانوادہ ، اپنے علمی و روحانی فیوضات اور انتظامی طور پر ایک مرکزی نظام کے قیام کے سبب بتدریج وسعت پذیر ہوا،تا ہم بھاکری بھی تقریبا’’بخاری‘‘کے ٹائیٹل ہی میں ضم ہوگئے ۔ وسط ایشیاء سے ان روابط کا احیاء علمی ، دینی اور روحانی حوالے سے گراں قدر اہمیت کا حامل ہے ۔ کچھ عرصہ قبل معلوم ہوا تھا کہ ہمارے ایک معروف ٹرانسپورٹ، اسی پرانی شاہراہ کے ذریعے،خود کو ان تہذیبی مراکز سے وابستہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ بر صغیر میں اسلامی علوم و معارف ، تصوّف و طریقت اور مدرسہ ایجوکیشن ،سینٹرل ایشیاء کے انہی راستوں سے آیا ہے۔ صدیوں قبل بر صغیر سے اعلیٰ تعلیم کے لیے بخارا و سمرقند کا رُخ کیا جاتا تھا،خطّے میں ملتان،دہلی کے بعد اہم ترین شہر تھا،از خود کشف المحجوب میں حضرت داتاصاحبؒ لاہور کے تعار ف میں لکھتے ہیں کہ مَیں ملتان کے مضافات میں لاہور نامی ایک قصبے میں ہوں اور پھر حضرت داتا صاحب ؒ کی برکت سے لاہور کو تہذیبی ارتقاء میسر آیا ۔ برصغیر میں طریقت و تصوّف اور احیائے سنت و شریعت کے حوالے سے گراں قدر خدمات سر انجام دینے والا سلسلہ’’نقشبندیہ‘‘جو خواجہ باقی با للہ ؒ کے توسل اور توسط سے سولہو یں صدی میں ہندو ستان پہنچا، جہاں مغلوں کے دربار ہندو راجائوں کے زیر اثر اور ان کے محل سر ا ہندو گھرانوں کی بااثر رانیوں کے تسلط میں تھے ۔ اس پُر خطر ماحول میں نقشبندیہ سلسلہ تصوّف کے عظیم روحانی پیشوا خواجہ امکنگی ؒ نے ، اسی ازبکستان کے ایک گائوں ’’امکنگ‘‘ سے خواجہ باقی باللہ ؒ کو اپنے سلسلے کی برکات عطا فرماتے ہوئے ، یہ مثردہ عطا فرمایا : آپ ہندوستان تشریف لے جائیں،کیونکہ وہاں آپ کے سبب ، اس سلسلے کو عروج میسر آئے گا۔ برصغیر میں نقشبندی سلسلے کے مورثِ اعلیٰ امام ربانی حضرت شیخ احمد سرہندیؒ،جو کہ مجدّد الف ثانی کے نام سے معروف ہوئے،حضرت خواجہ باقی باللہؒ کے خلیفہ اعظم اور جانشین ہوئے۔ آپؒ اعمال کی ادائیگی میں پیرویِ سُنّت پر سختی سے گامزن اور راہ ِ عمل میں غزیمت کے قائل اور رخصت سے ہمیشہ اجتناب فرما ہوئے ۔آپؒ کے سبب برصغیر میں نقشبندی سلسلے کو خوب ترویج اور ترسیخ میسر ہوئی ۔ خانقاہیں ذکر خفی سے روشن اور اتبا ع ِسنت سے جگمگا اُٹھیں ۔ آپؒ کے سبب اِس سلسلہ کا نور پوری دنیا میں پہنچا ۔ بخارا کی قدرتی سر سبز و شادابی اور فطری حسن و جمال ، اپنی جگہ معروف و معتبر ، لیکن بخارا کی شہرت کا ایک سبب یقینا محمد بن اسمٰعیل بخاریؒ بھی ہیں، جنہوں نے ، حضور اقدسﷺکی احادیث مبارکہ کو ان کی صحیح سند کے ساتھ ، جس طرح محفوظ اور مدوّن کیا ، وہ آپ ؒ کا عظیم الشان کارنامہ ہے ۔ آپؒ کا اسم گرامی ابو عبد اللہ محمد بن اسمٰعیل بن ابراہیم بن مغیرہ جعفی ہے ۔ آپؒ’’فارسی الاصل‘‘تھے ۔ امام بخاری ؒ کی پیدائش بخارا میں بروز جمعہ شوال 194 ھ بمطابق 809ء اور وفات جمعہ و ہفتہ کی درمیانی شب یکم شوال 256ھ بمطابق870ء میں ہوئی ۔ امام بخاری کے پردادا مغیرہ’’آتش پرست‘‘تھے ۔ انہوں نے والی ٔ بخارا’’یمان بخاری الجعفی‘‘کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور اسی لقب سے ملقب ہوئے۔ امام بخاری ، علوم و فنون حدیث کے ماہر اور امام کے بلند مقام پر فائز تھے ۔ بقول ابن حجر: وہ فقہ اور حدیث میں دنیا کے امام ہیں ، علل حدیث میں انہیں بڑی دستگاہ اور مہارت تھی۔ امام بخاری کی اصل شہرت ان کی کتاب’’الجامع الصحیح‘‘کے سبب ہے ۔ امام بخاری کے تبحرِ علمی کے سبب بعض اوقات یہ غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے کہ شائد آپؒ’’بخارا‘‘میں خاندان سادات بخارا کے فرد جلیل ہیں ۔ یہ اشکال محض کم علمی کے سبب ہے۔’’بخاری‘‘نقوی اور حسینی سادات کی ایک ذیلی شاخ (sub cast) ہیں ۔ امام محمد بن اسمٰعیل بخاری ؒ کا نسبی اعتبار سے سادات بخارا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ البتہ امام صاحب اسلامی علوم و معارف بالخصوص علم حدیث کے حوالے سے ایسے بلند مقام پر فائز تھے کہ ان پر سادات کرام بھی ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے ۔ بخارا و سمر قند کے مزارات ان کا طرز ِ تعمیر اور شان و شکوہ نگاہوں کو بھاتا اور دلوں کو منور و مسخر کرتا ہے،بخارا میں سلسلہ نقشبندیہ کے سرخیل سیّد بہاء الدین نقشبندی ؒ اور عظیم محدث امام بخاری ؒ کے مزارات کی حاضری یقینا روح کو تازگی اور دل کو حلاوت بخشتی ہے۔ ہمارے وزیر اعلیٰ، پنجاب کے مزارات و مقابر کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے ایک جامع پروگرام و َضَع کیے ہوئے ہیں ۔ امید روشن کہ ان کا حالیہ دورہ اس ضمن میں بھی نئی روایات کے اہتمام کا باعث ہوگا۔