کھیلیںجہاں تفریح ، خوشی اور مسرت کا باعث ہوتی ہیں، وہاںصحت ،تندرستی اور انسانوں کے آپس میں باہمی تعلقات کے فروغ کا بھی باعث ہوتی ہیں۔ دنیا میں ہر قوم کا اپنا ایک کلچر اور اپنی عادات اور اطوار ہیں۔کھیل ہر کلچر کا ایک ضروری حصہ ہے ۔ کوئی کلچر اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ لیکن کھیلوں کا انداز بھی ہر ملک کا اپنا ہے اور بہت سے کھیل خاص علاقوں سے ہٹ کر کہیں دوسری جگہ مقبول نہیں ہو تے اور نہ ہی مقبولیت حاصل کرسکتے ہیں، لیکن اس مخصوص علاقے کے لوگ انہیں بڑے ذوق اور شوق سے کھیلتے ہیں۔کچھ کھیلیں اپنے ماخذ سے بڑھ کرعالمی سطح پر پذیرائی حاصل کر لیتی اور پھر وہ ساری دنیا کی کھیلیں سمجھی جاتی ہیں ایسی کھیلوں میں فٹ بال، کرکٹ، ہاکی، باکسنگ،جیسی سینکڑوں کھیلیں ہیںمگر بہت سی ایسی کھیلیں بھی ہیں جو مخصوص علاقے کے لوگوں کے لئے ہی مخصوص ہیں۔جیسے کبڈی کی بات کریں تو کبڈی برصغیر کا ہی خاص کھیل ہے ، دنیا میں کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا۔ گلی ڈنڈاپنجاب کا کھیل ہے۔ ایسے تمام کھیلوں کو اسی علاقے کے لوگ کھیلتے اور اس سے محظوظ ہوتے ہیں جب کہ باقی تمام دنیا میں ان کھیلوں کو خاص مقبولیت حاصل نہیں ہوتی اور اس ملک کے علاوہ باقی دنیا کے لئے وہ کھیلیں کچھ عجیب سی ہوتی ہیں۔ جنوبی امریکہ میں کل بارہ ممالک ہیں ۔ ان میں ہر ملک کا اپنا ایک مزاج اور اپنا کلچر ہے۔ ان بارہ ممالک میں ایک ملک بولیویا ہے۔ بولیویا برازیل، پیراگوئے ، ارجنٹائن،چلی اور پیرو کے درمیان گھرا ہوا ملک ہے اور کسی جگہ بھی سمندر کو نہیں چھوتا، لینڈ لاک ملک ہے۔اس ملک میں اونچے پہاڑ بھی ہیں جو اینڈس مائونٹین کہلاتے اور برف سے ڈھکے رہتے ہیں اور جہاں موسم سخت سرد ہوتا ہے۔ یہاں’’اٹاکاما‘‘ نام کا صحرا بھی ہے جہاں موسم گرم ہوتا ہے اور یہاں دریائے ایمز ن کا علاقہ بھی ہے جو خطرناک جنگلات سے پرہے اورسارا سال بارشوں کی زد میں رہتا ہے۔یوں اس ملک کو ہر طرح کا موسم میسر ہے۔ یہاں شفاف شیشے جیسے پانی کی جنوبی امریکہ کی سب سے بڑی جھیل ٹی ٹی کا کا بھی ہے۔ بولیویا کے دارالحکومت دو ہیں۔ ایک لا پاز او ر دوسرا سکر۔ لا پاز بولیویا کا انتظامی دارالحکومت اور سکر اس کا آئینی دارالحکومت ہے ۔ اس ملک کی آبادی تقریباً سوا کروڑ کے لگ ٍبھگ ہے۔ زیادہ تر آبادی کا مذہب کیتھولک کرسچین ہے ۔جو کل آبادی کا 65 فیصد ہے۔ 15 فیصدلوگوں کا مذہب ان کا کوئی مقامی مذہب ہے۔باقی پروٹسٹنٹ، بدھ مت اور بہت سے مذاہب تھوڑی تھوڑی تعداد میں ہیں۔ مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں، شاید ان کی کل تعداد پندرہ سو کے قریب ہے۔کہتے ہیں کہ سپین کے اس ملک پر قبضہ کرنے سے پہلے یہاں مسلمانوں نے سات سو سال حکومت کی ، مگرجس طرح سپین سے مسلمانوں کا نشان تک غائب کر دیا گیا ہے اسی طرح یہاں بھی اب مسلمان بڑی مشکل سے ملتا ہے۔ یہ ملک 1532 سے 1824 تک سپین کی کالونی رہا اور یہاں کے باشندوں نے آزادی کے لئے ایک لمبی جدوجہد کی۔6 اگست 1825 کو ’’ ریپلک آف بولیویا‘‘ کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔اس جدوجہد کی قیادت ان کے عظیم لیڈرسائمن بولیور نے کی چنانچہ اس ملک کا نام اسی کے حوالے بولیویا کہلایا،سائمن بولیور ،بولیویا کا پہلا صدر بھی تھا۔اس سے پہلے یہ ملک چارکاس کہلاتا تھا اور ایک دوسرے ملک پیرو کے ساتھ اکٹھا اور ’’انکا‘‘حکمرانوں کے تحت تھا جن کا دارالحکومت پیرو تھا اور پیرو ہی سے سارا ملک کنٹرول ہوتا تھا۔ بعد میں پیرو اور بولیویا دو علیحدہ علیحدہ ملک وجود میں آئے۔بولیویا میں زندگی کے آثار 1800 قبل مسیح سے پہلے سے نظر آتے ہیں جب وہاں ’’ونکرانی‘‘ کلچر کی باقیات دریافت ہو رہی ہیں۔ 400 قبل مسیح میں اس کا ایک شہر .(Cochabamba)انتہائی تہذیب یافتہ شہر تھا اور اس وقت اس کی آبادی پچاس ہزار کے قریب تھی۔اس پرانی تہذیب کے اثرات اب بھی ہیں اسی لئے وہاں کے مقامی باشندوں میں اب بھی قدیم رسم و رواج پوری طرح نظر آتے ہیں۔سپین کے تسلط سے پہلے بھی یہ لوگ کافی تہذیب یافتہ تھے۔موجودہ تعلیم نے بھی کافی فرق ڈالا ہے مگر قدیم روایات اسی طرح قائم ہیں۔پرانے عقائد اور پرانے رسم و رواج کو وہاں کے لوگ بہت اہمیت دیتے اور اب بھی اس کا مظاہرہ ان کی روزمرہ زندگی میں نظر آتا ہے ۔ تنکو (Tinku) بولیویاوالوں کا ایک خاص فیسٹیول ہے ۔ جو ہر سال مئی کے مہینے میں لگاتار تین دن منایا جاتا ہے۔ان کی مقامی زبان میں تنکو کا مطلب ملنا ہے۔بولیویا کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ دھرتی ماں،جسے وہ پاچاماما کہتے ہیں ،کی فطرت ہے کہ وہ خون مانگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمیں پر روز خون خرابہ ہوتا ہے اور انسان ہی انسان کا خون بہا کر دھرتی کی اس فطرت کی آبیاری کرتا ہے۔ لیکن اگر دھرتی کو کسی اچھے انداز سے خون بہم کر دیا جائے تو قتل و غارت اور لڑائی جھگڑے کم ہوتے ہیں اور زمیں آپ کو خوب نوازتی ہے۔چنانچہ مئی کے ان مقررہ دنوں میں یہاں کے باشندے ایک میدان میں اکھٹے ہو کر ایک دوسرے کو شدید زدوکوب کرتے ہیں۔یہ لڑائی باکسنگ کی طرز پر ہوتی ہے اوراس کھیل کے کوئی مقرر قائدہ نہیں ہوتا۔ مختلف علاقوں کے مرد اور خواتین لڑتے لڑتے رقص بھی کرتے اور اور ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ہلکی پھلکی لڑائی میں جو شخص زخمی ہو جاتا ہے اور اس کا خون نکلنا شروع ہو جاتا ہے وہ خود ہی میدان سے باہرچلا جاتا ہے جب کہ بقیہ لوگ اس طرح لڑتے رہتے ہیں۔ تین دن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہو جاتی اور بہت سا خون بھی بہہ جاتا ہے ۔ چنانچہ سمجھا جاتا ہے یہ ہلکا پھلکا خون بہانے سے لوگوں نے ماں کے لئے ایک بڑی قربانی دے دی ہے جس سے زمین کی تسلی ہو چکی اب سارا سال زمین پوری زرخیزی سے فصلیں دے گی، جس سے خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔