عہدِ نبوی میں دو سپر پاور ز سے تصاد م تھا، ایک ایران اور دوسرا رُوم ، رُومیوں کے ساتھ جنگ کے لیے رسالتمأبﷺ تبوک تک تشریف لائے ۔ ظاہر ی حیات کے آخری دنوں میں بھی اُسامہ بن زید کی سرکردگی میں لشکر کی روانگی کا حکم فرمایا ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے بھی شام کی طرف چار لشکر روانہ کیے ۔انطاکیہ، قیصر کا ایشیائی دارالسلطنت تھا، جہاں تمام شکست خوردہ عیسائی بھا گ بھا گ کر اکٹھے ہورہے تھے ، ایک دن، ان کے سربراہ نے عمائدین سلطنت ، اعیانِ حکومت اور صاحبان فکر و تدبر کو اکٹھا کیا اور ان سے پوچھا کہ مسلمانوں کی اس قدرمحیر العقول کامیابیوں ، کا مرانیوں اور عیسائیوں کی پے درپے شکستوں کی وجہ کیا ہے ؟ایک نہایت جہاندیدہ اور پختہ کار درباری نے کہا کہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے اخلاق ہم سے بہت بلند ہیں ، وہ دن کو روزے رکھ کر مصروف ِ جہاد رہتے ہیں اور راتوں کواللہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتے ہیں ۔ وہ کسی پرظلم نہیں کرتے ، خواہ ان کا مفتوح و مغلوب ہی کیوں نہ ہو ، آپس میں برادرانہ مساوات کا برتائو کرتے ہیں ، ان میں نہ کوئی بڑا ہے اور نہ چھوٹا ، اس کے برعکس ہم شرابیں پیتے ، بد کاریاں کرتے ، قول و قرار کے مخالف ، دوسروں پر ظلم کرتے اور سوسائٹی میں فتنہ و فساد کے موجب ہیں ، ان کے ہر کام میں جوش و استقلال اور ہمارے طرز ِ عمل میں پست ہمتی ہے ۔ گویا مسلمانوں کو رفیع الشان کامیابیاں ان کے بلندی اخلاق کے رہین ِمنت ہیں۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے شام کی طرف چار لشکر بھیجے ۔ ان میں فلسطین حضر ت عمر و بن عاصؓ کے سپر د تھا ،فلسطین کا مرکزی مقام یقینا’’بیت المقدس‘‘ تھا، دوسری طرف قسطنطنیہ رُومیوں اور عیسائیوں کا قومی اور دنیاوی مرکز تھا، جبکہ بیت المقدس کی اہمیت ان کے لیے مذہبی اور روحانی اعتبار سے دو چند تھی اور ان سے کروڑوں عیسائیوں کے قلوب وابستہ تھے ، اس کی عظمت و رفعت ان کے دلوں میں پیوست اور اس کی حفاظت کی خاطر وہ سب کچھ نثار کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار اور اس کو باعث مسرت و اعزاز جانتے تھے۔ تاہم جذباتی عقیدتمندیاں اسی وقت خوشگوار نتائج دیتی ہیں ،جب قوم کی ہمتیں جوان اور عزم بلند ہوں ۔ شکست خوردہ اور ہزیمت گزیدہ قوم کے لیے یہ کوئی محکم سہارا نہیں بن سکتیں ۔ مسلمانوں کی پے در پے کامیابیوں کے پیش نظر وہ بیت المقدس کی حفاظت پر مرمٹنے کے لیے آمادہ ہونے کی بجائے ، اپنے تبرکات کو بیت المقدس سے قسطنطنیہ منتقل کردیا ۔ لیکن اس کے باوجود بھی اس کی اہمیت کم نہ ہوسکی ۔ چنانچہ ہرقل نے رومن کے سب سے بڑے سپہ سالار اطربون کی قیادت میں اپنی کثیر افواج کو یہاں جمع کرلیا اور روم کے اسقفِ اعظم صفرینوس بھی اپنے معبد میں براجمان ہوگیا ۔ بہ اختلافِ روایات رُومیوں نے شدّت سے مقابلہ کیا ، گھمسان کا رَن پڑا، مدینہ سے کمک بھی طلب ہوئی ، محاصرہ میں طوالت اور نئی جنگی حکمتِ عملی اور میدان ِجنگ کا نیا نقشہ بنا ، حضرت عمر از خود صحرائے شام اور صحرائے اردن کے نقطہ اتصال’’جابیہ‘‘پر خیمہ زن ہوئے ۔ یہ وہ نقطہ تھا جہاں رُو میوں نے باور کیا کہ اب مسلمانوں کا مقابلہ ممکن نہیں، چنانچہ فوج کا کماندڑ اطر بون نے اپنے ایک دستے کے ہمراہ مصرکے راستے فرار کی راہ لی ، جبکہ بوڑ ھے اسقف اعظم کے پاس مفاہمت کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔ لاٹ پادری اور اسقفِ اعظم نے مسلمانوں کے سپہ سالار کو پیغام بھیجا کہ ہم بلا مقابلہ اطاعت کے لیے تیار ہیں ۔ بشرطیکہ’’معاہدہ صلح‘‘پر آپ کا امیر المومنین خود یہاں آکر دستخط کر ے۔یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت عمر فاروق 15 ہجری بمطابق 635 ء بیت المقدس تشریف فرما ہوئے ۔تاریخ کو ایسے فردوس بد اما ں منظر کم کم دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ذراتفصیل ملاحظہ ہو :۔ بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی مملکت کا یہ سربراہ، فاتح ایران و روم کی حیثیت سے عازم سفر ہوا تو آپ ایک اونٹنی پر سوار تھے جس پر ایک اونی کمبل پڑا تھا ۔ یہ کمبل بحالتِ قیام بستر کا کام بھی دیتا تھا ۔ سرپر نہ ٹوپی تھی نہ عمامہ ۔ دونوں پائوں بے رکاب، کجاوے ،ایک دوسرے سے رگڑ کھا رہے تھے ۔ خرجی کھال کی تھی ، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ۔ اسے ضرورت کے وقت تکیہ بنا لیا جاتا تھا ۔ اِدھر اُدھر دو تھیلے لٹک رہے تھے ، جن میں سے ایک میں ستّو تھے اور دوسرے میںکھجوریں ۔ سامنے پانی کا مشکیزہ تھا ۔ رفقاء کی جماعت ساتھ تھی ۔ آپ ہر روز صبح اپنے رفقاء کے ساتھ بیٹھتے ، اپنا زادِراہ دستر خوان پر رکھ دیتے،جسے سب مل کر کھا لیتے۔راستے میں چلتے بھی جاتے اور اپنے ہمسفروں کو دین کی تعلیم بھی دیتے جاتے ۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک ایک اونٹ دو دو سواروں کے حصّے میں آیا تھا اور آپ کا زمیل آپ کا غلام (ملازم)تھا۔ایک منزل آپ سوار ہوتے اور غلام مہار پکڑتا اور دوسری منزل وہ (غلام) سوار تھا اور آپ مہار پکڑتے ۔ ایک جگہ راستے میں پانی آگیا تو آپ اونٹنی سے اُترے ، موزے اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیے اونٹنی کو ساتھ لے کر پانی میں اُتر گئے ۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے دیکھا تو کہا کہ آج آپ نے وہ کام کیا ہے جس کی اہل زمین کے نزدیک بڑی عظمت ہے ۔ آپ نے یہ کیا اور وہ کیا ہے ۔ آپ نے سُنا تو فرمایا :’’ابو عبیدہ! یہ بات تمہارے کہنے کی نہیں تھی ۔ ہم سب سے زیادہ غریب ، سب سے زیادہ حقیر اور سب سے زیادہ قلیل تھے ۔ اللہ نے ہمیں اسلام سے عزت دی ۔ یہی ہمارے لیے وجہ شرف ہوناچاہیے ۔ اگر ہم نے اللہ کے سوا کسی اور سے عزت طلب کی تو اللہ ہمیں ذلیل کردے گا‘‘۔ بیت المقدس سے کچھ فاصلہ پر تھے ،سواروں کا وہ دستہ آپہنچا جسے حضرت ابو عبیدہؓ نے آپ کے استقبال کے لیے بھیجا تھا ۔ اس وقت کیفیت یہ تھی کہ آپ نمدے کا کُرتہ پہنے ہوئے تھے جس میں چودہ پیوند لگے ہوئے تھے اور ان میں بعض پیوند چمڑے کے تھے ۔ ہمرائیوں نے عرض کیا کہ آپ ایک نئے ملک میں ، اجنبی قوم کے ہاں ، فاتح کی حیثیت سے جارہے ہیں ۔ بہتر ہو اگر آپ اونٹنی کے بجائے اس ترکی گھوڑے پر سوار ہوجائیں اور وہ لباس پہن لیں ، جسے حضرت ابو عبیدہ ؓ نے آپ کے لیے بھیجا ہے ۔ آپ نے ان کا مشورہ قبول فرما لیا اور وہ لباسِ فاخرہ پہن کر ترکی گھوڑے پر سوار ہوگئے ۔ چار قدم ہی چلے ہوں گے تو گھوڑے سے اُترگئے اور اپنے رفقا سے کہا کہ’’عزیزانِ من !تم میر ی اس لغزش سے در گزرکرو۔ اللہ قیامت میں تمہاری لغزش سے در گزر کرے ۔ جس نخوت اور تکبر نے اس وقت میرے دل میں راہ پائی وہ یقینا تمہارے امیر کو ہلاک کرد ے گی‘‘۔اس کے بعد وہ پوشاک اتارکر پھر وہی پیوند لگے کپڑے پہن لیے :آگے گئے تو حضرت ابو عبیدہ ؓ ، حضرت خالد بن ولید ؓ اور دیگر آپ کے استقبال کے لیے آئے ۔ انہوں نے ریشمی کُرتے پہن رکھے تھے ۔ آپ نے دیکھا تو سخت برا فروختہ ہوئے اور کہا کہ’’ تم لوگ اتنی جلدی بدل گئے ۔ تم نے دوہی برس میں، اس قسم کی تن آسانی اختیار کرلی ۔ اگر تمہارا یہی طرزِ عمل رہا تو ، خدا کی قسم! خدا تمہاری جگہ دوسری قوم لے آئے گااور تمہاری حکومت اسے دے دے گا کہ حریرواطلس پہننے والی قومیں حکومت کی اہل نہیں رہتیں۔