سنتے ہیں کہ اپنے ہی تھے گھر لوٹنے والے اچھا ہوا میں نے یہ تماشا نہیں دیکھا ادا جعفری نے نہ جانے کس تناظر میں یہ شعر کہا تھا مگر آج خیال آیا کہ وہ خوش قسمت ہیں جنہوں نے آج کے پاکستان میں سیاسی احتجاج کا یہ رقص اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ تحریک انصاف کے حامیوں نے جس طرح اپنے لیڈر کی گرفتاری پر طوفان اٹھایا ، اس کی سو بار بھی مذمت کی جائے تو کم ہے۔ پر تشدد احتجاج کے یہ ہولناک منظر پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ شرمناک اک باب کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ اپنے لیڈر کی گرفتاری اتنا غم وغصہ کہ تمام حدود پار کر لیں۔پر تشدد احتجاج کا یہ انداز پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہے۔ لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس کو جلا دیا گیا جتھے گھر میں گھس کر وہاں سے چیزیں چوری کرتے رہے کہ یہ ہمارا مال ہے۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت کو جلا دیا گیا وہاں کے کیمرہ توڑ دیے گئے وہاں کے مائک توڑ دئے گئے۔ گاڑیوں ،موٹرسائیکلوں کو آگ لگائی گئی۔ ایمبولینس کو بھی نہ بخشا مریض کو اتار کر ایدھی ایمبولینس کو جلا دیا گیا۔ ایمبولینس میں جائیں جانے والا مریض ایمرجنسی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے۔ ایم ایم عالم کا وہ تاریخی جہاز سیاسی احتجاج کی بھینٹ چڑھادیا۔ پہلے پہل کور کمانڈر ہاؤس پر حملے سے تحریک انصاف کی قیادت نے لاتعلقی کا اعلان کیا لیکن پھر رفتہ رفتہ ان کی اپنی آڈیوز اور ویڈیوز بھی منظرعام پر آنے لگیں۔ تحریک انصاف چیئرمین عمران خان نے ایک سو چھبیس دن کے دھرنے میںکیا کیا نہ کیا گیا، ہنڈی سے پیسے بھیجنا، بجلی کے بلوں کو جلا دینا، پی پی ٹی وی پر حملہ کرناآئین اور قانون کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ وہ وقت مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب عمران خان کے فالوورز نے پی ٹی وی پر چڑھائی کی تھی، ہمارے نزدیک پاکستان ٹیلی ویڑن کارپوریشن پاکستان کی سالمیت اور استحکام کی علامت ہے۔افسوس کے بعد ازاں ان تمام قومی جرائم کو سیاسی کیسز کے طور پر نمٹایا گیا۔ سیاست میں ایسے شدت پسندانہ احتجاج کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چائیے۔ اس وقت ہی یہ طے کرلیا جاتا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے حامیوں کو احتجاج کرتے وقت اس لکیر کو پار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی تو شاید آج پاکستان کو یہ سیاہ دن نہ دیکھنے پڑتے، تحریک انصاف بھی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح ایک سیاسی جماعت ہے جن کی لیڈرشپ پر کیسز بھی بنتے رہے ہیں وہ نیب کی پیشیاں بھی بھگتتے رہے ہیں ،اور طریقہ کار کے مطابق یہ سیاسی رہنما عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔جھوٹے سچے مقدموں میں انہیں سزائیں بھی ہوئیں انہوں نے جیل بھی کاٹی۔پاکستان کی سیاسی تاریخ بھٹو جیسے بہادر لیڈر سے روشن ہے جو ایک حیران کن بہادری سے پھانسی کے پھندے سے جھول گیا۔ مگر اپنی جان بچانے کے لئے کسی سے رحم کی اپیل کرنا گوارا نہیں کیا۔ پھر بھٹو کی بیٹی نے آخری وقت میں بھی بہادرانہ سیاست کی مثال قائم کی اور بھٹو خاندان سے نسبت کی وجہ سے بعد سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بننے والے آصف علی زرداری نے بھی گیارہ سال جیل کاٹ کر استقامت کی ایک مثال قائم کر دی۔نواز شریف بھی جیل جانے کے لیے لندن سے پاکستان اپنی بیٹی کے ہمراہ آئے اس حوصلے کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہوگی ۔ یہ اور بات کے بعد ازاں نواز شریف شریف جیل اس حوصلے سے نہیں کاٹ سکے۔پلیٹس لیٹس کا کیس بنا کر نواز شریف کو جیل سے باقاعدہ نکالا گیا اور اس ڈرامے میں اسٹیبلشمنٹ کے تمام اسٹیک ہولڈرز شریک تھے۔کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اعصاب شل ہو جانے اور طبعیت کی وجہ سے نواز شریف کو جیل میں کچھ ہو جائے سن کے لئے بہتر یہ تھا کہ اس سے جان چھڑائی جائے اور ان کو واپس جانے دیا جائے اور یہ وہ داغ ندامت ہے۔ جو آج بھی نواز شریف اپنے مخالفوں سے سنتے ہی کہ وہ بھگوڑے ہیں۔ سزا کو ایک حوصلہ مند اور بہادر شخص کا طرح کاٹنے والا شخص اور گھبرا کر صورت حال سے فرار حاصل کرنے والے میں فرق تو ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین تقریروں میں خود کو بہت بہادر ثابت کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایک دن بھی جیل کاٹنا ان کے لیے مشکل ہے۔یوں بھی وہ یقین رکھتے ہیں کہ جیل جانا ان کا نہیں ان کے مخالفوں کا کام ہے۔ وہ خود پاکستان کے آئین اور قانون سے ماورا ہیں۔ فروری میں جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا گیا ،جس نے کارکنوں کو کافی حوصلہ دیا ، سیاسی دنگل میں بھی کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ان دو دنوں میں بھی تحریک انصاف کے حامیوں پولیس اہلکاروں کی بھی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ عمران خان پر سو سے زیادہ کیس بنے جس میں سب سے زیادہ چرچا توشہ خانہ کیس کا ہوا لیکن ان کی گرفتاری القادر ٹرسٹ کیس میں ہوئی جو پچاس ارب روپے منی لانڈرنگ کا کیس ہے جس کی تفصیلات منظر عام پر آچکی ہیں۔ اس لیے کہانی ابھی شروع ہوئی ہے۔تحریک انصاف کے حامیوں کو مشورہ ہے کہ حوصلہ رکھیں اور اپنے لیڈر کو اوتار سمجھنے کی بجائے ایک عام پاکستانی سیاستدان سمجھیں ان کی انقلابی روح کو افاقہ ہوگا۔ ٭٭٭٭٭