پاکستان اس وقت ایک بہت بڑے بحران بلکہ طوفان کی زد میں ہے‘ یہ بحران 7دسمبر 1970ء میں آئے سیاسی بحران کے مقابلے میں بھی زیادہ وسیع‘خطرناک اور تیز رفتار ہے، اگر اسے جلد ہی روکا نہ جا سکا،تو اس کی خونریزی پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے‘ نام نہاد ارباب اختیار اس کو محسوس کیوں نہیں کر رہے؟ کیا سب ہی یحییٰ خاں اور اس کے ٹولے کی طرح مدہوش پڑے ہیں‘عوام کو اعتماد میں لئے اور ان کی تکلیف دور اور مطالبات کو تسلیم کئے بغیر اس بحران کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے‘ عوام کا مطالبہ اس قدر واضح ‘ سادہ اور جائز ہے کہ اسے کوئی بھی صائب الرائے نظر انداز نہیں کر سکتا‘7دسمبر 1970ء کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والا بحران الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے کے بعد حق حکمرانی سے انکار کے نتیجے میں پیدا ہوا شاید یہ پیدا تو پہلے سے تھا لیکن نتائج پر عملدرآمد نہ ہونے سے اس نے عفریت کی شکل اختیار کر لی اور عفریت پاکستان کی سالمیت کو نگل گیا‘ ایک بار دہرائے دیتا ہوں کہ موجودہ بحران 70میں گزرے سیاسی بحران سے کہیں سنگین‘ تیز رفتار وسیع الاثر ہے‘ اس کے پرت کھولنا اخبار کے کالم میں ممکن ہی نہیں نہ ہی کوئی ادارہ اس بوجھ کو کندھوں پر لے سکتا ہے۔اسکی وسعت اور اثر کو پوچھنا ہے تو لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم سے کوئی جا کر پوچھ لے اندرونی استحکام فوج اور عوام کی ہم آہنگی کے بغیر بیرونی خطرات کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، پہلے پہل ہمیں صرف اپنے مشرق کے دشمن سے خطرہ تھا، وہی دشمن مشرقی پاکستان کے مغرب میں پڑتا تھا۔یہ دشمن بہت بڑا ہونے کے باوجود میدان جنگ میں پاکستان کا سامنا نہیں کر سکتا تھا، اب بھی نہیں کر سکتا ہے لیکن سیاسی بحران‘ اقتصادی بدحالی اندرونی ملک خلفشار کے ہوتے ہوئے دشمن کو میدان میں اترنے کی کوئی ضرورت نہیں، اسے اس بے چینی اور خلفشار کو طول دینے اور متحارب گروہوں کو مل بیٹھنے سے روکنے کا کام کرنا ہے، باقی سب کچھ خود بخود ہو رہے گا، جو کہ عام حالات میں دشمنوں کا فقط خواب ہی ہو سکتا تھا کیا ہم افغانستان میں روسی مداخلت اور پھر امریکی حملے کے بعد خود کو الگ رکھ سکتے تھے؟ نہیں رکھ سکتے تھے یہ ممکن ہی نہیں تھا ہمارے قبائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں، پہاڑ‘ دریا اور گزرگاہیں بھی‘خون‘ تمدن تہذیب اور مذہب بھی، ہم خود کو ان کی مدد کرنے سے باز نہیں رکھ سکے تھے تو وہ بھی باز نہیں آئیں گے۔بھارتی ایجنٹ مدت سے اس بار بھی پرورش پا رہے ہیں ،طالبان حکومت ان ایجنٹوں کو پاکستان آنے سے روک پائے گی؟ وہ تو عام حالات میں بھی ہمارے محافظوں‘ مسجد و مدارس تک حملہ آور ہوتے رہتے ہیں اندرونی حالات انہیں کھل کھیلنے کا موقع مہیا کر دیں گے۔ ہم نے حکومت کے خلاف اٹھنے والی دو تحریکوں میں براہ راست شرکت کر کے دیکھا ‘ پرامن تحریک کے سیاسی کارکن انتظامیہ کے جبر اور ظالمانہ رویے کے بعد خود پر زیادہ دیر تک قابو نہیں رکھ سکتے، خصوصاً نوجوان جلد ہی تشدد کے جواب میں تشدد کی راہ چل پڑتے‘ جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ کارکن کسی حد تک ثابت قدم رہ کر تشدد برداشت کر لیا کرتے تھے لیکن ان کا بیرونی حلقہ آخر کار مقابلے پر اتر آتا تھا‘ ایوب خاں کے خلاف چلنے والی تحریک‘ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریکیں پرامن تھیں لیکن انتظامیہ کے رویے اور حکومتی کارندوں کے ہتھکنڈے انہیں تشدد کی راہ پر گھسیٹ لے گئے تھے۔ تحریک انصاف کی حالیہ جدوجہد پاکستان میں اٹھنے والی ہر تحریک سے زیادہ طاقتور اور تیز رفتار تحریک ہے‘ جس میں ہر عمر‘طبقہ‘ علاقہ اور صنف برابر شریک ہیں‘ قیادت کی مرکزیت نے اسے توانائی بخشی ہے‘ یہ بھانت بھانت کے کنبے اور بولیاں بولنے والوں کا اتحاد نہیں جو چند مشترکہ مفادات کے لئے اکٹھے ہو گئے ہوں‘ قیادت پرجوش‘ بہادر اور ہمہ وقت مصروف اور موجود ہے‘ قتل ہونے کے خوف‘ جیل جانے کے ڈر اور تشدد کے امکانات پر بھی خوفزدہ نہیں ہوا‘ پاکستان بھر میں اسے 80فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے‘ وہ بیک وقت ہر گروہ‘ جماعت‘ طرز فکر کا متبادل بن کر سامنے آیا لیکن اس کا کوئی متبادل ابھی تک پیدا نہیں ہے‘ سیاسی میدان میں اس کا کوئی ثانی ہے نہ ثالث۔ انتظامیہ سیاست کا متبادل نہیں ہے‘ سیاسی متبادل دستیاب نہیں‘ مارشل لاء کے لئے حالات سازگار نہیں‘ عوامی حمایت کسی کے لئے نظر نہیں آتی‘ ایک لیڈر اور ایک سیاسی تحریک کا راج ہے‘ جب متبادل دستیاب ہی نہیں تو کروگے کیا؟؟ وہ ہر گزرتے دن عوام و خاص میں مقبول اور مخالفین کے لئے خطرناک ہوا جاتا ہے‘ اس پر قاتلانہ حملہ ہوا‘ جلوس روک دیا گیا‘ زخمی عمران خاں ایک چھوٹے کمرے تک محدود ہو گیا۔وہ پورا دن چل کے جاتا ایک دن میں دس بیس ہزار یا زیادہ سے لاکھ لوگوں سے مخاطب ہو سکتا تھا‘ کمرے میں محدود ہو گیا تو ہزاروں لوگ اس کے گھر کے باہر اکٹھے بیٹھ رہے‘ ہر دن سارے بڑے شہروں میں میدان سج گئے بڑی بڑی سکرین لگا کر لوگ اس کی تقاریر سننے لگے دنیا بھر کا میڈیا چوبیس گھنٹے آس پاس سڑکوں پر موجود رہنے لگا، ایک پل اس سے نظر ہٹتی نہیں‘ بڑے بڑے لکھاری ‘تجربہ کار ‘ ٹی وی میزبان کوڑیوں کے بھائو بکنے لگے‘ جس نے اس کی طرف پیٹھ کی پوری دنیا نے اس سے منہ موڑ لیا ہے‘ یہی مقدر ہے مقدر سے کون بچ سکتا ہے؟ کوئی نہیں کبھی نہیں؟ یاد رہے اس کی زندگی میں ہی سارے فیصلہ سازوں کی سلامتی ہے، یہی طوطا ہے جس کے اندر سب کی جان ہے اس کی سانس رکی تو سبھی تڑپ تڑپ جائیں گے! بھارت کے میڈیا پر ان دنوں پاکستان کے حالات پر تبصروں کے سوا کچھ سننے کو آتا ہے نہ دیکھنے کو ملتا ہے‘ خصوصاً عمران خاں کی گرفتاری کے بعد لاہور چھائونی میں کور کمانڈر کے گھر پر عوام کے یلغار‘ راولپنڈی جی ایچ کیو کی طرف لوگوں کا مارچ ‘ پشاور‘ ملتان میں کور کمانڈر ہائوسز کا مسئلہ ہے اور عوام کا آزادانہ داخل ہو جانا خصوصی دلچسپی کا موضوع بنا ہوا ہے۔افواج پاکستان ہمارا فخر ہیں، ہم ان سے پیار کرتے ہیں تو وہ اپنی قوم پر جانثار کرتے ہیں: جاں تجھ پر نثار کرتا ہوں میں نہیں جانتا وفا کیا ہے؟ انہوں نے ہماری سلامتی امن اور مصیبت پر اپنی جانیں قربان کیں‘ دن اور رات کا ہر پہر پہرے میں گزارے یہ گہرے تعلق‘ محبت بلکہ عشق کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، رہی جی ایچ کیو اور کمانڈرز ہائوسز میں عوام بلکہ ہجوم کا بلا مزاحمت داخلہ تو اس کو سازش سے تعبیر کرنے کی بجائے ایک مثبت زاویہ نگاہ بھی ہے اور وہی زیادہ حقیقی اور قرین قیاس ہو سکتا ہے۔ ہر کمانڈر کے گھر کی حفاظت کے لئے درجنوں مسلح جوان چوکس رہتے ہیں‘چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی، ہنگامی ضرورت کے وقت سینکڑوں اور بلائے جا سکتے ہیں وہ سب ہمارے ہی بھائی ‘ جسم و جان کا حصہ ہیں، وہ جانتے تھے جانتے ہیں کہ عوام کی نبض کیا ان کے جوانوں اور گھر والوں کی فکر کیا ہے۔عمران خاں کی گرفتاری پر ردعمل آئے گا اور ردعمل کا رخ کس طرف ہو گا۔ہم جانتے ہیں تو وہ کیوں نہیں سمجھتے ہونگے؟ انہوں نے اپنے ناراض بھائیوں اور بیٹوں کی لاشیں گرانے خون سے ہاتھ رنگنے کی بجائے خود کو بروقت پیچھے ہٹا لیا‘ محافظوں کو منع کیا اثاثہ جات کا نقصان بھائی کی لاش اٹھانے سے کہیں بہتر ہے۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا1977کی تحریک میں اسی لاہور کی مال روڈ پر عوام پر گولی چلانے کی بجائے چار بریگیڈیئر اپنے عہدوں کو چھوڑ گئے تھے‘ ان کی یہ قربانی بحران کے حل کا سبب بنی تھی۔یہ کوئی سازش ہے نہ بزدلی یہ ناراض بھائیوں کی اصل محبت کی کہانی ہے اسی میں یقینا اس بحران کا حل بھی ہے۔