گزشتہ صبح روزنامہ 92کے پہلے صفحہ پر ایک خبر پڑھی تو دل خون کے آنسو رونے لگا۔ خبر کا متن کچھ یوں تھا۔ ’وفاقی وزیر ِ ریلوے اور ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے چیئرمین تحریک ِ انصاف عمران خان کو موجودہ دور کا یزید قرار دے دیا۔انہوں نے کہا کہ ایک مطلق العنان ظالم حکمران کلمہ ِ حق سے متنفر، کسی بھی قانون اور اخلاقیات سے ماورا، آپ کے دور کا جبر و جھوٹ ہم نے بھگتااور قوم نے برداشت کیا ہے۔خواجہ سعد رفیق ایک زیر ک سیاستدان ہیں۔وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے وفادار سیاسی کارکن ہیں۔ جنہوں نے مسلم لیگ نواز کے سابقہ دورِ حکومت میں پاکستان ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بھرپور کوشش کی اور کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے۔ وہ ہمیشہ دورانِ گفت گو ادب و آداب کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیں۔ مندرجہ بالا بیان اگرچہ خالصتاً ایک سیاسی بیان ہے مگر اس بیان کے مندرجات اس قدر حساس ہیں جن پر چوک چوراہے پر کھڑے ہوکر بات نہیں کی جاسکتی۔ بڑے سے بڑا عالم ِ دین بھی ایسے حساس موضوع پر بات کرنے سے کتراتا ہے۔نواسہ ِ رسولﷺ جناب حضرت ِ امام ِحسینؓ کی ذاتِ اقدس نے میدانِ کربلا میں قربانی کی ایسی مثال رقم کی جس کی نظیر ِثانی قیامت برپا ہونے تک نہیں ملے گی۔ شہیدِ کربلا حضرتِ امامِ حسینؓنے اپنی پرنور آنکھوں کے سامنے اپنے چار بھائیوں، بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں، عزیز و اقارب اور جانثاروں کو نہ صرف شہید ہوتے دیکھا بلکہ شہدا ء کے جسد مبارک اْٹھا کر لائے۔ بعد میں سردارِ جوانانِ جنت،صبر و شجاعت کا عظیم پیکر اور فاتح خیبر کا عظیم سپوت میدان ِ کربلا میں اْترا اور شجاعت و بہادری کی وہ داستان رقم کی کہ یزیدی افواج پر ہیبت طاری ہوگئی۔ بہر حال یزیدی افواج کو چالاکی و عیار ی کاسہارا لینا پڑا اور عین وقت ِ نماز میں شمر ملعون نے نواسہِ رسولﷺ کی گردن مبارک پہ تلوار چلادی اور آپ ؓ شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے۔ کربلا کی جنگ خالصتاًَ دین ِاسلام کی سربلندی کی لڑائی تھی جس میں ایک جانب حق و سچ کا پیامبر تھا جبکہ دوسری جانب شراب، فسق و فجور، جھوٹ، لالچ، ہوس ِ حکمرانی میں مبتلا بگڑا ہوا مثل ِ شیطان حکمران تھا۔ جس نے تلوار کے زور پر حق پر غلبہ حاصل کرنا چاہا مگر وہ ناکام رہا۔ جنابِ خواجہ سعد رفیق کا بیان ایک اکیلے شخص کا بیان نہیں ہے۔ یہ بیان صرف اْن کی ذات کا ترجمان نہیں ہے بلکہ اس طرح کے بیانات علم سے عاری ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف دیتے آئے ہیں۔ کبھی عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو پچھاڑنے کے لئے اسلامی شعائر اور واقعات کا سہارا لیتے ہیں اگر کبھی اْن کے سیاسی مخالفین یہی کام کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب کے بیان کا مقصد صرف عمران خان کو سیاسی طورپر نیچا دکھانا ہے۔ حالانکہ وہ یہ کام واقعہ کربلا کی مثال دیے بنا بھی کرسکتے تھے۔ اسی طرح کچھ دن قبل عمران خان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کچھ اسی طرح کا بیان دیا۔ وہ بھی چاہتے تو واقعہ کربلا کا سہارا لیے بنا سیاسی بیان جاری کرسکتے تھے مگر انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا۔ حیران کن امر تو یہ ہے کیا ایسے سیاستدانوں کو واقعہ کربلا کی حرمت و حساسیت کا احساس نہیں ہے؟ کیا کسی سیاستدان نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائیوں، بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں، عزیز و اقارب اور جانثاروں کو راہِ خداوندی میں شہید ہوتے دیکھا ہے؟ میاں محمد طفیل کے علاوہ شاید ہی کسی شخص نے اپنے بچوں کو جہاد پر روانہ کیا ہو۔ سیاستدان تو ہمیشہ پاکستان کو لوٹ کر اپنے بچوں کو بیرون ِ ملک کاروبار قائم کرکے دیتے ہیں۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ اِن کے بچوں کو گرم ہوا تک نہ لگے۔ پاکستان میں چلنے والی سیاسی تحریکوں میں ہمیشہ عوام کے بچوں کو ہی قربانی کی بلی پر چڑھایا گیا ہے۔ماضی قریب میں دہشت گردی کی لہر میں خیبر پختونخوا کے بلور خاندان نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے وگرنہ سبھی سیاستدان نت نئے نعروں کے ذریعے عوام کو ہی جذباتی کرتے آئے ہیں۔ ان نعروں میں اپنا ہوش کھوکر جان دینے والے عوام ہی کے بچے ہوتے ہیں۔ کسی بم دھماکے میں کسی بھی سیاسی حکمران کے بچے شہید نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ عوام کے بچوں کو بھڑکایا گیا ہے۔ ایک طرف اتنی بڑی منافقت اور دوسری طرف کربلا جیسے سانحہ کا سہارا لے کر ایک دوسرے کو یزید قرار دینے کی روش چہ معنی دارد؟ اِن نابکار سیاستدانوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ ان میں سے کتنوں نے اللہ کی راہ میں خود قربانی پیش کی ہے؟سچ تو یہ ہے کہ سیاسی وابستگی سے بالا تر ہوکر ان سیاستدانوں نے ایک دوسرے سے رشتے داریاں قائم کی ہوئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ایک بھائی ایک سیاسی جماعت میں ہوتا ہے، دوسرا کسی دوسری جماعت میں ہوتا ہے۔ سارا دن یہ ایک دوسرے کی جماعت اور لیڈران کو کوستے رہتے ہیں اور رات کو ایک ہی گھر میں اور شاید ایک ہی میز پر کھانا کھارہے ہوتے ہیں۔ مثلاََ محمد زبیر مسلم لیگ نواز میں ہیں تو اْن کے بھائی اسد عمر تحریک انصاف میں ہیں۔ نوابزادہ افتخار حسین پاکستان پیپلز پارٹی میں ہیں تو اْن کے بڑے بھائی نوابزادہ منصور علی خان پاکستان تحریک ِ انصاف میں ہیں۔ اسی طرح اور کئی امثال موجود ہیں۔ اندر سے سبھی سیاستدان ایک ہی قبیلے کے افراد ہیں۔ ہر قبیلہ اس وطن ِ عزیز کو لوٹ رہا ہے۔ اس قبیلے کا تقریباََ ہرفرد مال بناؤ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔عرض ِ پاک میں کبھی کسی سیاستدان کو بدعنوانیت پر پھانسی نہیں دی گئی، چور بازاری اور لوٹ مار پر کبھی کسی حکمران کو پابند ِ سلاسل نہیں کیا گیا۔ یہ جان بوجھ کر ایک دوسرے پر مقدمہ بازی کرتے ہیں اور عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔اندر سے سبھی چاہ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کرپشن کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملنے چاہیں اور یہ مواقع انہیں ’جمہوریت کی حفاظت‘ کی صورت میں ملتے رہتے ہیں اور خبر نہیں کب تک ملتے رہیں گے۔ اس لئے خدارا اپنی ذاتی مفادات کی خاطر کربلا جیسے سانحہ کی صورت میں حق و باطل کی لڑی گئی جنگ کو مت لائیں کیونکہ حق کی خاطر قربانی دینا آپ کے بس کی بات نہیں۔اس لئے سیاست کو سیاست تک ہی محدود رکھیں اور اسلامی شعائر کا مذاق مت اڑائیں۔ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آوازہے اْس کی ضرب فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ تک برداشت نہیں کرپائے۔