ہم کسی اور معاشی اصطلاح سے واقف ہوں نہ ہوں مگر جی ڈی پی (گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ) کے نام سے ضرور واقف ہوتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ پیداوار ماپنے کی کس طرح کی پیمائش ہے؟ایک لفظ میں کہا جائے تو جی ڈی پی سے مراد یہ ہے کہ ملک نے ایک مالی سال میں کتنا منافع کمایا۔ اس لیے اس میں کمائی جانے والی رقم سے اخراجات نکال کر صرف منافع کی رقم دکھائی جاتی ہے۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ اخراجات بھی کسی نہ کسی طرح ملکی کمائی میں شامل ہی ہوئے ہونگے، تو ان کو نکالنے کی وجہ کیا ہے؟ملکی معیشت میں شامل ہونے تک تو بات صحیح ہے مگر دوسری جانب وہی اخراجات کسی اور کے منافع میں بھی شامل ہوتے ہیں اور آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے اور اس طرح اگراخراجات کمائی سے نہ نکالے گئے تو ایک ہی پیداوار مختلف ذریعوں سے کئی بار شمار کی جائے گی۔بعض ایسے حالات میں جہاں اخراجات کا اندازہ لگانا مشکل ہو وہاں عام طور پر کمائی کے ایک تہائی حصہ کو خرچہ سمجھا جاتا ہے۔ جی ڈی پی لفظ کے بارے میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ گراس آخر کیوں کہتے ہیں؟ آپ نے اگر کبھی کوئی چیز خرید کر اس کا وزن دیکھنا چاہا تو شاید آپ کا واسطہ ان دوالفاظ سے ضرور پڑا ہو گا،گراس ویٹ اور نیٹ ویٹ۔ان دونوں میں فرق کوایک سادہ مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔فرض کریں آپ کسی پلاسٹک پیک میں بناسپتی گھی خریدتے ہیں۔ اگر اس پر گراس ویٹ لکھا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ پیک کرنے کے بعد اس کا وزن کیا گیا اور اس لیے اس میں پلاسٹک کا وزن بھی شامل ہے،وہ چاہے جس قدر بھی نہ ہونے کے برابر ہو، اس کے برعکس نیٹ ویٹ خالصتاً صرف بناسپتی گھی کا وزن ہوتا ہے۔بجٹ میں کمائی کو گراس کہنے سے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ اخراجات نکالنے کے بعد بھی منافع میں آخر"پلاسٹک" کیا ہے؟ منافع میں"پلاسٹک" ان مشینوں کا استعمال ہے،جن کے ذریعے چیزیں بنائی جاتی ہیں۔نہ تو وہ مشینیں چیز بنانے کے عمل میں کھپ جاتی ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی نیا خرچہ آتا ہے، مگر پھر بھی استعمال ہونے کی وجہ سے ان کی قیمت میں کمی ضرور آتی ہے۔ استعمال ہونے کی وجہ سے مشینوں کی قیمت میں اس کمی کو ڈپری سی ایشن کہتے ہیں،اگر اس کو بھی کمائی سے نکالا جائے تو اس کو نیٹ ڈومیسٹک پراڈکٹ کہتے ہیں۔ چونکہ ڈپری سی ایشن کو ماپنے کا کوئی خاص پیمانہ نہیں، اس لیے سارے اعدادوشمار جی ڈی پی کی شکل میں بتائے جاتے ہیں۔ جی ڈی پی میں دوسرا لفظ ڈومیسٹک ہے۔ اس لفظ سے آپ پہلے واقف ہیں اور آپ نے صحیح اندازہ لگایا کہ اس سے مراد وہ منافع ہے جو ہمارے ملک میں بننے والی چیزوں سے حاصل ہو۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جی ڈی پی میں وہ منافع شامل نہیں جو ہمارے ملک کے باشندوں نے باہر کسی ملک میں چیزیں بنا کر کمایا ہو۔ اگر وہ منافع جات بھی شامل کیے جائیں تو اس کو گراس نیشنل پراڈکٹ کہتے ہیں۔ جی این پی کسی ملک کی دیرپا ترقی کیلیے انتہائی اہم ہے۔ جی این پی کو سالانہ دیکھنے کی بجائے عام طور پر لمبے وقفوں جیسے دہائیوں کے بعد دیکھا جاتا ہے۔ تیسرے لفظ پراڈکٹ میں کوئی پیچیدگی نہیں اور اس سے مراد منافع ہی ہے۔ جی ڈی پی کا انحصار کسی ملک کی آبادی پر ہوتا ہے، اس لیے محض جی ڈی پی سے ملکی ترقی یا پسماندگی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ جی ڈی پی کو قابل فہم بنانے کیلئے اس کو ملک کی آبادی پر تقسیم کیا جاتا ہے اور حاصل تقسیم کو فی کس جی ڈی پی کہا جاتا ہے۔کچھ دوسرے عوامل ساتھ ملا کر اس سے ایک ملک کی ترقی یا پسماندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات کسی دوسرے ملک سے موازنہ زیادہ معنی خیز معلومات نہیں دیتا،اس کی وجہ ملکوں میں روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں فرق ہے۔مثال کے طور پر پاکستان میں بیس ڈالر سے روزمرہ استعمال کی جتنی چیزیں خریدی جاسکتی ہیںجنوبی کوریا میں کوئی شخص شاید وہی چیزیں سو ڈالر میں بھی نہ خرید سکے۔ اس سب فرق کے باوجود بہرحال ملکوں کی معیشت کا موازنہ فی کس جی ڈی پی کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے۔ جی ڈی پی کو سمجھنے کے بعد بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھے جائیں،کورونا کے بعد دنیا بھر کی معیشتیں عدم توازن کا شکار ہیں،اس لیے میں یہاں کورونا سے پہلے کے اعداد و شمار پیش کرونگا۔ 2018ء میں پاکستان کی جی ڈی پی $1,565 بتائی گئی جبکہ 2017ء میں ہماری جی ڈی پی$1544 تھی۔ اس طرح 2018ء میں پاکستان کی جی ڈی پی میں تقریباً1.4%کا اضافہ ہوا۔ صرف جی ڈی پی میں اضافے سے غربت یا آسودگی کا واضح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، اس کے ساتھ بہت سے اور فیکٹرز جیسے مہنگائی کی شرح ، آبادی میں اضافے کی شرح اور ڈالر کی قیمت میں کمی بیشی وغیرہ جیسی چیزیں بھی دیکھنی ہونگی۔ 2018ء میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح تقریباً 4% رہی تو اس لحاظ سے جی ڈی پی میں یہ اضافہ کوئی مثبت معنی نہیں رکھتا۔ ملکی تاریخ میں جی ڈی پی میں سب سے زیادہ اضافہ 1980ء میں 48%دیکھا گیا اور سب سے زیادہ کمی 1973 میں 34% کی ہوئی۔ سال2008ء کے بعد کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس دوران جی ڈی پی میں سب سے زیادہ اضافہ2011ء میں 18% ریکارڈ کیا گیا، اس سال مہنگائی کی شرح 14%تھی، جی ڈی پی میں سب سے زیادہ کمی 2009ء میں 4% ریکارڈ کی گئی اور اس سال مہنگائی کی شرح 20% تھی۔ سال2000ء کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح 2009ء میں 20% اور سب سے کم 2016ء میں 3% ریکارڈ کی گئی۔ (جاری ہے )