اگر ہم زندہ ہیں تو یہ ہمارے لیے خدا کی طرف سے کھلا اور واضح پیغام ہے کہ ہم زندگی کے ہل سے اس کیاری میں اپنی پسند کے پھول اگانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بس اس کے لیے ذرا سی مشقت‘ کمٹ منٹ‘ ایمانداری اور مقصد سے سچائی درکار ہے۔ جی ہاں! قوموں کی زندگی میں اس سے برے وقت بھی گزرے ہیں۔ ہمارا بحران تاریخ کے بحرانوں میں کوئی معافی نہیں رکھتا۔ آپ امریکہ کی مثال لیں غلاموں کی جتنی بڑی تجارت اس ملک نے کی ، کسی نے نہیں کی لیکن آج انسانی حقوق کا تحفظ تو رہا ایک طرف امریکہ کتوں کی خوراک اور ادویات پر سالانہ سات ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ جاپان میں دو صدی پہلے کشتی بنانے والے کاریگر کو پھانسی پر چڑھا دیا جاتا تھا۔ آج دنیا کے سب سے زیادہ سائنسدان اور انجینئر اسی جاپان میں ہیں ۔ چین کو دیکھیں ستر سال پہلے دنیا اس نئی ابھرتی سپر پاور کو اصولی ریاست کہتی تھی آج یہی چین دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے۔ برطانیہ میں ولیم ٹنڈیل کو بائبل کا ترجمہ کرنے کے جرم میں زندہ جلا دیا گیا تھا اب انسانی حقوق کے حوالے سے ایک مثالی ملک ہے۔ لیکن ہمارے ملک اگر غریب اپنے تحفظات کے حوالے سے کوئی گارنٹی مانگے تو اسے بجلی کے مہنگے ترین بل جس میں 36 قسم کے ٹیکس اور نہ دیکھے جانے والے ٹی وی کی فیس ڈال کر تھما دیے جاتے ہیں۔ اگر غریب بجلی کے بل جلانے یا خود کو آگ لگالے نہ کسی عدالت کو فرق پڑتا ہے نہ کسی حکومت کو اس کی پروا ہے۔ حکمران مہنگائی کی نئی نئی منطق پیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اب فوج کے سربراہ نے ڈنڈا اٹھایا ہے تو ایک ہیجان برپا ہے۔ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ہمیںایران اور افغانستان کے بارڈرز سے ہونے والی سمگلنگ کو روکنے کی کوششیں کرنا ہونگی ۔ ان دونوں ممالک کو اس وقت امریکہ کی جانب سے لگائی تمام تر تجارت پابندیوں کا سامنا ہے، اس لیے آفیشل ٹریڈ نہیں ہو سکتی۔ ایران کے بارڈر پر 120 روپے کا تیل دستیاب ہے جبکہ پاکستان 306 روپے فی لٹر بک رہا ہے، 180 روپے فی لٹرکے مارجن کے ساتھ سمگلنگ روکنا ایک بڑا مشکل کام ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ افغانستان کے ساتھ بھی ہے۔ وہاں سے ہمارے پاس کوئلہ آ رہا ہے۔ چینی جا رہی ہے۔ یہ بنیادی طور پر انٹرنیشنل افیئرز کا مسئلہ ہے ہمیں امریکہ کو بتانا چاہیے کہ ان ممالک پر لگائی گئی پابندیوں کے سبب پاکستان کی معیشت ک شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہماری ٹریڈ نہیں ہورہی‘ ہمیں کم از کم بارٹر ٹریڈ کی اجازت دیں۔ 2000 میل کے بارڈر کو کوئی بھی ملک کنٹرول نہیں کرسکتا‘ اس میں ہمارا قصور نہیں ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت ہے۔ دونوں اطراف میں قیمتوں کا زمین آسمان کا فرق ہے۔ دوسرا معاملہ ڈالر کا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہرسال تیس ارب ڈالر کا زرمبادلہ آتا ہے۔ یہ سب چھوٹے چھوٹے اور بہت چھوٹے غیر ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی جانب سے ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں حوالہ اور ٹرانزیشن کو مینج کرنا واقعی بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ حوالہ کیا ہوتا ہے ایک عام آدمی کے سمجھنے کے لیے کہ حوالہ میں کرنسی کی حرکت نہیں ہوتی۔ ڈالر وہاں سے یہاں نہیں آتا۔ یہ سمجھ لیں کہ آپ کے بھائی نے ڈالر امریکہ میں ہی آپ کے دوست کو دے دیئے۔ انہوں نے اپنے گھر میں فون کرکے بتادیا کہ پاکستان کرنسی میں وہ اتنے پیسے آپ کے گھر پہنچا دیں۔ یہ آسانی سے سمجھنے کے لیے ایک مثال ہے۔ حوالہ کو دنیا میں کہیں بھی کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ لوگ چھوٹی چھوٹی ضروریات کی اشیاء ادویات ملبوسات وغیرہ کے خریدوفروخت کے حوالے سے کرتے ہیں۔ اس حوالہ کو آپ کیسے روکیں گے، اتنے بڑے کیش ٹرانزیکش کے ساتھ۔ 1992ء میں نوازشریف صاحب نے پاکستان میں ایکسچینج کمپنیوں کو کھولنے کے لائسنس دے دیئے۔ دنیا میں دبئی اور سعودی عرب کے کہیں بھی اس طرح کی ایکسچینج نہیں ہوتیں۔ دنیا بھر میں آپ کو ہر جگہ Money Changer منی چینجر ہوتا ہے۔ منی چینجر کا کام یہ ہوتا ہے کہ آپ اگر کسی غیر ملک سے آئیں تو منی چینجر کے پاس جا کر وہ کرنسی دے کر اس کے برابر پاکستانی روپیہ لے سکتے ہیں۔ وہ منی چینجر آپ کو ڈالر نہیں دیتا۔ اگر آپ کو فارن کرنسی چاہیے تو پھر آپ دنیا بھر میں یہ کرنسی کسی بینک یا سنٹرل بینک سے لیں گے جو مکمل طور پر اس کوائف کے ساتھ دی جائے گی کہ ان دستاویزات کے تحت جو ضرورت بتائی گئی ہے یہ وہیں خرچ ہوگی۔ اس طرح Documented یہ ہو جاتی ہے۔ نوازشریف نے ان ایکسچینج کمپنیوں کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ جتنی چاہے کرنسی خریدیں اور جس کو چاہے بیچ دیں۔ اربوں روپے کا دھندہ کرنے والی ان کمپنیوں کے لئے صرف 20 کروڑ روپے کی سکیورٹی کی شرط رکھی گئی۔ پھر یہ واقعات بھی ہوئے کہ ایک مالک نے اپنی کمپنی سے اربوں کا کاروبار کیا اور پھر انہیں تالا لگا کر باہر چلا گیا۔ اس کے نہ کوائف آپ کے پاس ہیں نہ ایسی کمپنی کھولنے والے کے لیے کوئی مشکل شرائط رکھی گئیں۔ اب حکومت نے ایک اچھا کام کیا کہ ایکسچینج کمپنی کا کم از کم سرمایہ کاری یا کیٹل کو20 کروڑ سے بڑھا کر 50 کروڑ کردیا اس طرح ایسی کمپنیوں کی بی کیٹیگری ختم کردی۔ اب بینکوں کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایکسچینج کمپنیاں بنائیں‘ اس طرح جو کمپنیاں از خود پہلے کم اور پھر ختم ہو جائیں گی یہ ضروری نہیں کہ تمام ایسی کمپنیاں غلط کام کرتی ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ اس طرح غلط کام کرنے والی کمپنیاں حوالہ کے لیے کائونٹر بن جاتی ہیں۔ یہ خطرناک بات ہے۔ یہ Back Door کا کام ملک میں نہیں ہوسکتا۔ اس میں تبدیلی ضروری کرنی پڑے گی۔ اب آئیں بجلی چوری روکنے کی طرف، اس کے لیے کئے جانے والے اقدامات کے ساتھ ساتھ اسمارٹ میٹر کی تنصیب کی تجویز پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آئین کے مطابق ہر کام ہونا چاہیے۔ پھر آئین میں عوام کے حقوق اور حکمرانوں کی ذمہ داریاں بھی تو لکھی ہیں۔ دعوے اور نعروں سے بات بنتی تو ملک کا یہ حشر نہیں ہوتا۔ کرپشن ا،قربا پروری‘ سفارش‘ قبضہ مافیا‘ اس ملک ہر اس چیز کا چلن ہے جس نے اس قوم کے لئے مسائل پیدا کئے۔ نااہل اور کرپٹ بیوروکریسی نے اپنے مفادات کے لیے اس ملک کو دائو پر لگا دیا ہے۔ ملک کے نظام کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی محاذ آرائی کا ٹمپریچر نیچے لانے کی اشد ضرورت ہے۔ عقل کے ناخن لیں۔ دو قدم پیچھے ہٹیں۔ جنرل عاصم منیر نے جو ڈنڈا اٹھایا ہے اسے زیادہ سرعت اور موثر انداز سے چلانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر مہنگائی کو کم کرنے کے حوالے سے روزمرہ کی تمام ضروریات کی اشیاء کو ایک توازن میں رکھنے کے لیے وہ جو بھی اقدامات کریں گے۔ پوری قوم ان کا ساتھ دے گی کیونکہ اب لوگوں کی بس ہو گئی ہے۔ عام لوگوں کو آپ کی آرڈیننس‘ بلوں، ترمیموں اور قوانین سے کوئی دلچسپی نہیں‘ انہیں تو بس صاف ستھرا پانی چاہیے‘ باعزت روزگار، ضرورت کے مطابق تنخواہیں اور معاوضہ‘ سستا اور فوری انصاف،تعلیم ،سڑکیں، بجلی ،ٹیوب ویل اور ایک سیدھا سا نظام چاہیے۔