تحریک انصاف کے چیئرمین کی گرفتاری اور رہائی کا تماشا ہم سب نے دیکھا۔ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ اگر عمران خان کی جگہ کوئی مذہبی لیڈر ہوتا اور اس کے فالوورز نے یہ طوفان ملک میں اٹھایا ہوتا تو اس وقت آپ کی رائے یقینا مختلف ہوتی۔ عالمی اداروں اور عالمی برادری کی طرف سے بھی پاکستان ایک الگ دباؤ کا سامنا کرتا۔اگر فالورز امن تباہ کرتے ہیں تو ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔پاکستان کے وقار اور سالمیت کو کسی صورت قربان نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کے فالوورز اپنے لیڈر کی رہائی پر خوش ہیں، زمان پارک میں جشن منایا جارہا ہے۔ سچ پوچھیں تو 9مئی کو پاکستان میں جو کچھ ہوا میں ابھی اس صدمے سے باہر نہیں نکلی ۔میرے پاس چند سوالات ہیں جو میں پاکستان کے مقتدر حلقوں کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں۔ مان لیجئے کہ سیاسی جماعت کے فالورز کو اپنے لیڈر کی رہائی پر جشن منانے کا پورا حق ہے۔مٹھائیاں بانٹیں اور بھنگڑے ڈال لیں ۔ لیکن میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ 9 مئی کو پاکستان میں جو کچھ ہوا اس کا ماتم کون کرے گا اس کا حساب کون دے گا؟ ریڈیو پاکستان کے خاکستر در و دیوار بھی سوال کرتے ہیں کہ یہاں آگ لگانے والوں نے کس کے مقاصد کو پورا کیا ؟ جنگوں کی تاریخ پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ جنگوں کے دوران ایسے ریڈیو براڈکاسٹنگ کے ادارے کی خاص طور پر حفاظت کی جاتی ہے کیونکہ دشمن ریڈیو کے ادارے کو تباہ کرکے صرف کمیونیکیشن کا راستہ نہیں روکتا بلکہ ملک کی سالمیت اور استحکام کو نشانہ بناتا ہے ۔آپ تحریک انصاف سے سیاسی وابستگی رکھتے ہیں تو بھی دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھیں کہ کوئی محب وطن اس طرح پاکستان کے قیمتی اثاثوں کو نذرآتش کر سکتا ہے؟ مزید یہ کہ پولیس چوکیوں اور کور کمانڈر کا گھر ریاست کی مضبوطی اور سالمیت کی علامت ہے۔یہاں تباہی پھیر کر دشمن کو خوش کرنے والے لوگوں کا احتساب کون کرے گا ؟ اس سیاسی دنگل میں کتنی ہی قیمتی جانیں چلی گئیں۔ان میں پی ٹی آئی کے ورکرز بھی تھے، پولیس کے اہلکار بھی تھے عام شہری بھی تھے۔جن کے بیٹے اس احتجاج کی نذر ہوئے ہیں۔ ان کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہے مگر لیڈر اپنے فالوورز کے ساتھ جشن منا رہا ہے ۔اس بے حسی کا ماتم کون کرے گا؟ مجھے ایسے لیڈر پر حیرت ہے ۔اس کی گرفتاری پر اس کے فالوورز ملک میں طوفان کھڑا کر دیتے ہیں، آگ لگا دیتے ہیں، اور وہ اک ادائے بے نیازی سے کہہ دیتا ہے میرے پاس موبائل نہیں تھا مجھے کچھ خبر نہیں کیا ہوا۔اور موبائل فون کی بھی اچھی کہی ، ان آڈیو لیکس کا بھلا ہو کہ اب کچھ بھی چھپا نہیں رہتا۔اس سے صرف لیڈر ایکسپوز نہیں ہوتے اور بھی کرداروں سے پردہ اٹھتا ہے۔ آگر آپ ایک مقبول ترین لیڈر کے ٹیگ کو انجوائے کرنا جانتے ہیں تو اس ذمہ داری کو بھی اٹھانا سیکھیں۔دنیاکی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں لیڈر ہمیشہ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتا ہے کیونکہ اس کے فالوورز اس کے ذہن سے سوچتے ہیں۔لیڈر اپنی زبان فالوورز کے منہ میں ڈالتا ہے اسی لیے تو وہ فالوورز کہلاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے فالورز نے نو مئی کو جو طوفان اٹھایا ،جس طرح ریاست کی املاک کو نقصان پہنچایا اس کی تمام تر ذمہ داری تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر عائد ہوتی ہے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جتھوں کو ریاست کے مقابل لڑنے بھڑنے کی پوری تربیت دی گئی۔اس کا اظہار اس وقت بھی ہوا تھا جب فروری میں زمان پارک پر آپریشن کے دوران ،گھر کے اندر سے پیٹرول بم پولیس اہلکاروں پر پھینکے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح منظم انداز میںشرپسندوں نے پاکستان کو مفلوج کیا تاریخ کا بدترین جلاؤ گھیراؤ کیا وہ مکمل طور پر اس جنگ کے لیے تیار تھے۔اس کا اظہار عمران خان کے بیان سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اگر مجھے دوبارہ پکڑا گیا تو پھر اسی طرح کا ردعمل آئیگا، اس بیان میں ثابت ہوتا ہے کہ نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ لیڈر ہی کا پڑھایا ہوا سبق تھا۔ میانوالی سے پی ٹی آئی کے خرم روکھڑی کی پریس کانفرنس ان حالات میں بہت اہم ہے۔ یہ یقینا پہلے سے طے شدہ تھا کہ کسی بھی ایسی صورت حال میں فالوورز عمران خان کے لیے بھرپور احتجاج کریں گے۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے خان صاحب! آپ اس طرح اک ادائے بے نیازی یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ مجھے کچھ خبر نہیں۔ نو مئی کو جو کچھ اس ملک میں ہوا اس کے ذمہ دار آپ ہیں کیونکہ یہ آپ کے فالوورز تھے اور آپ کی گرفتاری پر احتجاج کر رہے تھے۔ ہر سیاسی ڈویلپمنٹ پر رائے تقسیم ہوئی ہے۔ جیسے عمران خان کی گرفتاری اور رہائی پر دو رائے ضرور ہو سکتی ہیں لیکن گرفتاری کے ردعمل پر جو بدترین احتجاج ہوا اس پر قطعاً دورائے نہیں ہوسکتیں۔ریاست کا یہ نقصان ہر پاکستانی کا نقصان ہے۔ اہل اختیار کو بھی اپنی ذاتی سیاسی وابستگیوں سے نکل کر ریاست کے مفاد کی حفاظت کرنی چاہیے اور ریاست کے ساتھ اپنی وابستگی کو ثابت کرنا چاہیے کیونکہ آئین کا تقاضا بھی یہ ہے اور اہم عہدوں پر بیٹھے ہوئے اہل اختیار کا وقار بھی ریاست سے وابستگی میں پنہاں ہے۔خدارا ملک میں لگی ہوئی اس آگ کو بجھائیں نا کہ اس کے فریق بن کر آگ کو ہوا دیں۔ ورنہ یہاں کسی کا گھر محفوظ نہیں رہے گا۔چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔