عمران خاں کی گرفتاری اور رہائی سب کچھ صرف اڑتالیس گھنٹوں میں ہو گزرا ہے‘ ناکردہ گناہوں کا ملزم دراصل ایک دن پولیس‘ رینجر‘ نیب یا پردہ نشینوں کی تحویل میں رہا ہے‘ یہ گرفتاری نیب کا کام تھا نہ پولیس کی ضرورت نقاب پوش ہی محرک تھے اور انہیں کے ایما پر ایک سال سے قوم سولی پر چڑھی ہے۔پولیس ہاتھی کے وہ دانت ہیں جو کھانے کیلئے نہیں کھانے والے دانت اندر چھپے ہیں، جو نظر نہیں آتے۔خان بھی نظر نہ آنے والوں کا زندانی تھا‘آج اپنے بھائیوں سے پوچھا عمران خاں کس تاریخ کو گرفتار ہوا؟ بولے 9مئی کو اور اس کی ضمانت؟ 11مئی کو‘ ہیں گرفتاری اور رہائی میں صرف ایک دن‘یہ دن کتنا طویل تھا برسوں پر محیط ایک پل اتنا سست رفتار کہ ہفتوں مہینوں میں گزرتا محسوس ہوا۔چند گھنٹے صرف چند گھنٹے میں کیا کیا نہیں ہو گزرا۔ بھرم کھل گئے‘ نقاب اتر گئے‘ جو سنگ و آہن تھے‘ ریت کی دیوار ثابت ہوئے‘ جو رستم و سہراب کہلائے وہ بچوں کا جی بہلانے والے ’’جوکر‘‘ نکلے۔مولوی کندہ جہنم، جنہیں برگر نسلیں اور تتلیاں کہا کرتے تھے وہ ابر ہو کے ہاتھیوں کو بھس بنا دینے والے ابابیل تھے۔ بہادری اور جانفروشی کی ایسی عمدہ اور حیراں کن مثالیں اسلاف کے کارناموں میں پڑھی تھیں، انہیں نئی نسل نے ہماری جاگتی آنکھوں کے سامنے دہرا دیا، مگر سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ رینجر جنہیں سرحدوں کا اولین محافظ گردانتے ہیں وہ ہم وطنوں کیلئے بے رحم نکلے‘ پنجاب اور اسلام آباد کی پولیس نے بے حیائی اور قومی غیرت کا جنازہ کندھوں پر اٹھائے رکھا‘ مقبوضہ کشمیر فلسطین اور شام کے مناظر جو مسلمانوں کو غصہ دلاتے اور ان کی محبت پر کوڑے کی طرح لگتے تھے وہ لاہور اور اسلام آباد میں اس کثرت سے دیکھنے کو ملے کہ چند دن کے یہ مناظر فلسطین اور کشمیر میں برسوں گزرنے والوں سے کہیں کثرت سے دہرائے گئے۔ ہاں مگر پختونخواہ کے بھائیوں بہنوں کے لئے ان کی پولیس کا رویہ واقعی آزاد قوموں کی شایان تھا‘جو کچھ پنجاب پولیس کرتی رہی‘ رینجر کے ہاتھوں دیکھنے کو ملا‘ انہیں خیبر پختونخواہ کی پولیس کے رویے کو دیکھ ڈوب مرنا چاہیے‘ آئی جی پولیس‘ ایف سی کمانڈٹ ہی نہیں عام پولیس کے معمولی سپاہی نے بھی دو ٹکوں کی نوکری کیلئے اپنا وقار مجروح اور ہم وطنوں کی عزت سے کھیلنے پر انکار کر دیا، نوکریاں چھوڑ کر گھروں کو چل دیے یہ ہمارے اصل ہیرو کا تمغے اور انعام و اکرام کے اصل مستحق ایسے ہی لوگ ہیں‘ وہ لوگ احترام کے قابل اور سر آنکھوں پر بٹھانے کے لائق ہیں جنہوں نے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کیا۔غیر قانونی احکامات سے انکار ہی دراصل قانون کی منشا اور آئین کا تقاضا، ہماری افواج اور دیگر اداروں کے اعلیٰ عہدیدار‘ صدور اور وزیر اعظم گورنر اور وزراء اعلیٰ منصف اور قاضی سب آئین کی منشا کے مطابق قوم سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ان کی قسمیں وعدے آئین کی حفاظت اور قانون پر عملدرآمد کے لئے ہوتی ہیں، چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ آئین کی منشا اور قانون کے خلاف احکامات لینے اور عمل کرنے سے صاف انکار نہ کیا جائے، اس انکار پر استعفیٰ انکار کرنے والوں کا نہیں، حکم دینے والے پر لازم ہے ۔قانون پر عمل کرنے والوں کو اپنے منصب سے رضا کارانہ الگ ہو کر برے لوگوں کے لئے جگہ خالی نہیں کرنا چاہیے اس سے توازن برقرار نہیں رہ سکے گا اور معاشرہ جنگل کا معاشرہ بن جائے گا۔ اپنے جائز مطالبے اور منصب کیلئے عدالت کی مدد اور قانون کا سہارا لینا چاہیے۔برے لوگوں کیلئے اچھے لوگ بے وجہ جگہ خالی کیوں کریں؟البتہ ہماری قوم کے لئے حالیہ واقعات میں اطمینان بلکہ فخر کے بہت سے پہلو ہیں، ایک تو یہ کہ نئی نسل جبر ظلم اور تشدد کے ہاتھوں مغلوب ہونے سے انکاری ہے اور انہوں نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے اور جمہوری حقوق کو حاصل کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے پر عہد باندھا ہے‘ عہد باندھا ہی نہیں عہد نبھایا بھی ہے۔گزشتہ دنوں ایک فوجی جوان کی شہادت پر جب شہید کے ساتھی جوان تابوت لیکر شہید کے گھر پہنچے، تو اس کے والد جو خود بھی افواج پاکستان میں خدمات انجام دے چکے تھے انہوں نے گھر کی دہلیز پر تابوت کو روک دیا اور لاش لے آنیوالے جوانوں سے کہا پہلے یہ بتائو میرے بیٹے کو گولی کہاں لگی ہے؟ پیٹھ یا سینے پر‘ اگر پیٹھ پر ہے تو اسے واپس لے جائو میں اپنے قبرستان میں اسلاف کے ساتھ دفن نہیں کروں گا‘ اگر گولی سینے پر کھائی ہے تو بسم اللہ میرا سر بلند ہے‘ اسے بتایا گیا کہ آپ کا بیٹا مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوا، اس نے گولیاں سینے پر لی ہیں اور دشمن کو جان آسانی سے نہیں دی، انہیں ادھیڑ کے رکھا ہے، تب اس بات نے اس کا تابوت بسم اللہ پڑھتے ہوئے، فخر کے ساتھ وصول کیا تھا۔ہمارے قومی مستقبل کیلئے یہ اطمینان کی بات ہے کہ انہوں نے غیر تو کیا اپنوں کی غلامی سے بھی انکار کیا، پنجاب کا جوان کراچی کا مہاجر اور سندھ کا مظلوم انہوں نے پختون اور بلوچ بھائیوں کی طرح آنکھ ملا کر جینا سیکھ لیا ہے۔رہ گئی ترجمانوں کی بات تو ان کی اب سنتا کون ہے، اک دنیا نے دیکھا کہ کبھی وہ معتبر تھے اتنے معتبرکہ آنکھ بند کر کے ان کا کہا سچ مانا جاتا تھا اور سچ ہوتا بھی تھا اب ترجمان تو کیا جن کی ترجمانی کی جاتی ہے ،انہوں نے بھی جتن کر کے دیکھا کوئی سنتا ہے۔مجبوراً سن بھی لے تو مانتا نہیں ہے‘ لفظ معنی کھو گئے، لہجے میں لکنت اور چہرے پر اڑتی ہوائیاں‘ تیری صبح کہہ رہی ہے، تیری رات کا فسانہ دن رات کی ساری داستان ماتھے پر لکھی ہے۔’’خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے‘ ایسے ویسے بے خبر ہوا کرتے تھے ایک جناب قمر جاوید باجوہ کہ دعویٰ خدائی تھا، جن کو وہ بن نہ سکے معقولی بشر‘ عمران خاں کی اچھی بھلی حکومت کو ہٹانے نکلے معلومات کا یہ عالم کہ انکے سروے انہیں 7فیصد حمایت دکھا رہے تھے، جی ہاں مقبولیت نہیں صرف حمایت‘ قرآن میں ارشاد ہے آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں دل اندھے ہوتے ہیں‘ انہیں یہ سجھائی دیا کہ لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے، سڑکوں پر ہجوم نکلے گا، لوگ تراویح کے بعد نماز شکر ادا کریں گے، گلیاں سنجیاں ہونگی رانجھا یار پھرے گا۔ عمران خاں نواز شریف کی طرح بھاگم بھاگ لندن میں پناہ گزین ہو گا جگہ خالی پا کر نواز شریف دوڑتا ہوا پاکستان آئے گا، جب دل اندھے ہوتے ہیں تو عمران کی معزولی سے پہلے ان کے جلسے جس زور شور اور پرہجوم ہوئے وہ بھی نظر نہیں‘ اسلام آباد پریڈ گرائونڈ میں 27مارچ کے جلسے نے بھی آنکھیں نہیں کھولیں ہاں مگر کھولتے بھی کیسے آنکھیں نہیں دل جو اندھے ہو گئے تھے۔معلومات ناقص تھیں تو انہیں معلومات کی بنیاد پر تجزیے کئے گئے انہی تجزیوں کی بنیادوں پر حکمت عملی سبحان اللہ وہ حکمت عملی کہلائے گی بلند و بالا عمارت ریت کی بنیادوں پر۔تجزیہ کار کون تھے وہی عبقری دانشور جنہوں نے نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نااہل ہونے پر مشورہ دیا کہ اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کے راستے احتجاجی جلوس لے کر نکلو لاکھوں لوگ ہمراہ چلیں گے۔لاہور تک آتے آتے حکومت ختم۔نقل کیلئے بھی عقل چاہیے مگر عقل کہاں؟ آنکھیں نہیں دل اندھے ہوتے ہیں۔عقل کے اندھوں کو یاد نہیں رہا جناب!چیف جسٹس کا جلوس بھی اسلام آباد سے نکلا تھا‘ فیصلہ کن جگہ اسلام آباد ہے‘ پھر یہ کہ لاہو میں بھائی کی حکومت تھی اور اسلام آباد میں جناب نے ایک دن پہلے اپنے نامزد کو وزیر اعظم بنوایا تھا تو جلوس لے کر کس کی حکومت گرانے چلے تھے۔کہا گیا حکومت سے نکلے تو نواز شریف خطرناک ہو نگے، جیل گئے تو بہت خطرناک(36لاکھ) لوگ جیل کی دیواریں توڑ کر نواز شریف کو باہر نکالیں گے۔خمینی کا انقلاب لوگ بھول جائیں گے، پیش گوئی درست نکلی مگر اس تبدیلی کے ساتھ وہ انقلابی نواز نہیں عمران خاں کی شکل میں آیا۔