وفاقی بجٹ 2023-24 آ چکا ۔ اس بجٹ سے ملک کی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، یہ ایک الگ بات ہے۔ اس بجٹ سے ایک بات طے ہے کہ یہ سال الیکشن کا سال ہے۔بجٹ کو دیکھ کر لگتا ہے یہ ایک الیکشن بجٹ ہے۔ اس بجٹ میں وہ سب باتیں شامل ہیں جو ایک الیکشن بجٹ میں شامل ہوتی ہیں اور وہ سب باتیں غائب ہیں جو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لئے ضروری تھیں۔ یہ بجٹ سبسیڈیز سے بھرا پڑا ہے۔ اس بجٹ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی تمام شرائط بجٹ میں منوا لی ہیں۔ اگر یہ بجٹ صرف پاکستان مسلم لیگ نواز کا بجٹ ہوتا تو سرکاری ملازم کی تنخواہ 15 فی صد سے زائد نہیں بڑھنی تھی۔ اب اس بجٹ میں سرکاری ملازم کی تنخواہوں میں ا ضافہ 35 فی صد ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بجٹ میں دو باتیں خاص ہوتی ہیں ایک تو کسان کے لئے مراعات ہوتی ہیں اور دوسرا سرکاری ملازم کے لئے مراعات۔ اس بجٹ میں یہ دونوں خصوصیات شامل ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لئے بہت فنڈ رکھے جاتے ہیں سو اس بار بھی بجٹ میں یہ بات شامل ہے اس بجٹ سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کا مشترکہ بجٹ ہے۔ مشکل حالات میں اسے ایک اچھا بجٹ کہا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چند ماہ بعد ایک ضمنی بجٹ آئے جس میں آئی ایم ایف کو راضی کیا جائے اس بجٹ میں اکانومی کے حوالے سے کوئی سخت اقدامات نہیں کئے گئے۔ انکم ٹیکس میں کوئی اضافہ نہیں ہے۔ ایک سپر ٹیکس لگایا ہے جس کی تین سلیب ہوںگی۔ پہلے 15 کروڑ سے زائد آمدن والے کاروباری حضرات پر یکساں ریٹ سے سپر ٹیکس لگتا تھا اب تین سلیب متعارف کروائی گئی ہیں۔ اب 35 سے 40 کروڑ کی آمدنی والے لوگوں پر 6 فی صد کے حساب سے سپر ٹیکس لگے گا۔ جن کی آمدنی 40 تا 50 کروڑ ہوگی ان پر 8 فی صد کے حساب سے اور 50 کروڑ سے زائد آمدن والوں پر 10 فی صد کی شرح سے سپر ٹیکس لگے گا۔ اب یہ سپر ٹیکس کس طرح وصول ہوگا یہ بھی ایک چیلنج ہے کیونکہ پاکستان میں طاقتور طبقہ کسی قسم کا ٹیکس دیناگوارہ ہی نہیںکرتا۔ بیرون ملک کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی پر بھی ٹیکس کی شرح میں بہت اضافہ کیا گیا ہے ، فائلر کے لئے یہ شرح ایک فی صد سے پانچ فی صد اور نان فائلر کے لئے دو فی صد سے بڑھا کر 10 فی صد کر دی جائے گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتی ہے۔ سولر پینلز پر کسٹم ڈیوٹی پر چھوٹ کی تجویز ہے۔50000 ٹیوب ویل کو بجلی سے سولر پر منتقل کیا جائے گا۔ زرعی قرضے ارب تک بڑھانے کی تجویز ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 450 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جس سے 93 لاکھ خاندان کی امداد ہو گی۔ بجٹ کی کل مالیت 14460 ارب روپے ہے جس میں 7303 ارب روپے سود کی ادائیگی میں چلے جائیں گے۔ دفاع کے لئے 1804 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ 1074 ارب روپے سبسیڈیز کے لئے رکھے گئے ہیں۔ پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے لئے 950 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام ڈویژن کے لئے اربوں روپے رکھے گئے ہیں۔ اب آجائیں آمدن کی طرف۔ ایک بڑی رقم قرضے کی مد میں ہے جن میں بینکوں سے 3134 ارب روپے اور 1906 ارب روپے نان بینکنگ قرض کے ہیں۔ٹیکس ریوینیو میں 9200 ارب کا حدف رکھا گیا ہے۔ بجٹ میں ایک امید بہت ہے کہ ہمیں کئی جگہ سے قرض مل جائے گا۔ جن میں سعودی عرب سے نئے فنڈ کی توقع ہے اور یو اے ای کی جانب سے رقم متوقع ہے۔ اب سعودی عرب اور یو اے ای کی جانب سے جو رقم ملنی ہے وہ آئی ایم ایف کی امداد کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے پیسے نہیں ملتے تو سعودیہ اور یو اے ای سے بھی پیسے نہیں ملیں گے۔ اب پاکستان کی حکومت کی مثال اس فرد کی ہے جو اپنا مکان بنانا شروع کر دیتا ہے بغیر پیسوں کے۔ اور حساب لگاتا ہے اینٹوں کے پیسے فلاں رشتہ دار سے لے لوں گا۔ سیمنٹ کے فلاں رشتہ دار سے اور مزدوری فلاں دوست سے لے لوں گا۔ اب ان لوگوں میں کون پیسے دیتا ہے کون نہیں یہ ان کی اپنی مرضی ہے۔ ہم دیوالیہ پن کے قریب ہیں اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ لوگ ہماری مدد کریں گے۔ جب کسی فرد کی ساکھ متاثر ہوتی ہے تو اس کو قرضہ کوئی نہیں دیتا اور ہم ہیں امید لگائے بیٹھے ہیں کوئی ہمیں قرضہ دے اور ہم اس سے سو د کی رقم ادا کریں۔ اس وقت ہماری اکانومی صرف دو باتوں کے گرد گھوم رہی ہے ہمیں قرضہ کہاں سے ملے گا اور ہم سابقہ قرضوں پر سود کیسے ادا کریں گے۔ نا کسی کو ایکسپورٹ کی فکر ہے نا خام مال کے امپورٹ کی۔ تارکین وطن کے ساتھ جو سلوک ہم کررہے ہیں اب باہر سے رقم کی ترسیل بھی اتنی زیادہ نہیں ہے۔ اب غور کی بات ہے کہ الیکشن کب ہوگا اور کونسی پارٹی بر سر اقتدار آئے گی اور نیا بجٹ کون بنائے گا۔ یہ بجٹ کتنے دن چلتا ہے اور ڈالر کی اڑان کب رکتی ہے۔ تیل کی قیمت کم ہونے کے اثار ہیں۔ یہی اس بری صورتحال میں ایک اچھی خبر ہے۔ روس سے سستا تیل آنا شروع ہو گیا ہے۔اس سلسلہ میں پہلا جہاز اتوار کو کراچی لنگر انداز ہو چکا ہے۔ روس سے ایک لاکھ ٹن خام تیل پاکستان آرہا ہے ، پہلا جہاز 45000 ٹن تیل لیکر پاکستان پہنچ چکا ہے۔ دوسر ا جہاز بھی جلد پاکستان آجائے گا۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم شہباز شریف قوم کو مبارکباد دے چکے ہیں۔