پچھتر  برس اسی سوز وساز رومی اور پیچ و تاب رازی میں گزر گئے۔کوئی مرد قلندر آیا نہ کوئی معجزہ رونما ہوا۔  مملکت خداداد پاکستان کے افق  پر سورج بھی طلوع ہوتا ہے۔ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی موجزن ہے۔چٹیل میدان ہیں تو  لہلہاتے  کھلیانوں  میں دہکتے پنڈوں  والے گھبرو  دہقان بھی، فلک پوش پہاڑ ہیں تو  گلیشئر بھی،زمین کی چھاتی پر سیال چاندی کی طرح بہتے دریا  ہیں تو، چٹانوں  کی کوکھ سے بہتی دودھیا آبشاریں بھی، جلترنگ کی صورت پھوٹتے چشمے ہیں  تو  زیر زمین معدنی ذخائر بھی، بھاری مشینوں سے نبرد آزما  ہنر مند بھی، صورت فولاد کے خوگر سر حدوں کے نگہبان  بھی،  نیلے  پانیوں  کے  پاسبان ہیں تو فضاؤں میں پلٹ کر جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا  کی عملی تصویر شاہین بھی ،  درسگاہیں  ہیں تو  ان سے  فارغ التحصیل ڈاکٹر انجینئر، قانون دان آرکیٹیکٹ، معیشت دان  اور دنیاوی علوم کے ماہر بھی ، محراب و منبر ہیں تو  میناروں سے پانچ وقت  بلند ہوتی رب ذوالجلال کی کبریائی کی صدائیں بھی۔  سب کچھ ہی تو میرے رب نے پاکستان  کو دیا۔   کچھ نہیں  ہے تو وہ  صرف اخلاقی قوت  کچھ کر گزرنے کا عزم، اور خلوص نیت نہیں ہے ورنہ ان تمام نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا سبب ہے کہ آج ہم اقوام عالم کے سامنے کشکول گدائی اٹھائے پھر رہے ہیں۔المیہ سا المیہ ہے کہ ایٹمی طاقت کا حامل ملک آج تلک اپنی ضرورت کی بجلی پیدا نہ کر سکا  ستم بابائے ستم زرعی ملک ہونے کا دعویدار ملک اجناس بھی در آمد کرنے پر مجبور ہے۔ قوم کی مائیں اور بیٹیاں آٹا لینے کے لئے جان کا خراج ادا کرتی رہیں۔ ملک میں لگی سٹیل مل جو  ملکی صنعت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر سکتی تھی  لیکن وہ بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر خزانے کے لئے بوجھ بن گئی، پاکستان ریلوے،  نیشنل شپنگ کارپوریشن، قومی ایئر لائن ڈاک کا نظام سب کچھ  اپنی بربادی پر مرثیہ خوانی کرتے نظر آتاہے۔ایک طرف ناقص منصوبہ بندی دوسری جانب  ان اداروں کی تباہی میں کام کرنے والے ملازمین  نے بھی اپنا اپنا حصہ پوری طرح ادا کیا۔ نتیجہ ہر ادارہ قصہ پارینہ ہو گیا۔سونے پر سہاگہ معاشرتی اونچ نیچ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کرپشن، اقربا پروری نے جہاں معاشرتی حسن کو گہنایا وہیں سماجی سطح پر نفرت کے جذبات کو ہوا دینے والی قوتوں نے معصوم ذہنوں کو اپنی چکنی چپڑی تقاریر سے رام کئے رکھا۔ملکی وسائل عوام کی امانت ہوتے ہیں مراعات یافتہ طبقات کی جانب سے ان  وسائل  کا بے دریغ و بے محابہ استعمال عوام کے دلوں میں  نہ صرف  احساس محرومی پیدا کرتا ہے بلکہ امن و عامہ کے مسائل کے ساتھ ساتھ ایسے طبقات کو قانون شکنی پر بھی اکساتا ہے۔المیہ یہ رہا ہے کہ تقسیم کے بعد وطن عزیز کو مخلص قیادت نہ مل سکی۔اخلاص کے ماپنے کا پیمانہ بظاہر تو یہ ہی ہے کہ قول و فعل میں تضادات نہ ہوں لیکن حقائق  کینوس پر منظر کشی کرتے ہیں وہ خاصے بھیانک ہیں۔تین تین مرتبہ حکومتیں کرنے والی سیاسی جماعتیں جب یہ کہتی نظر آئیں کہ اس بار اگر موقع مل گیا تو تقدیر بدل دیں گی۔کسی بھونڈے مذاق سے کم نہیں۔ در حقیقت  یہ وہ زہر ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام کی رگوں میں اتارا جا رہا ہے۔ ڈنگ ٹپائو پالیسیاں ملک و قوم کی تقدیر نہیں سنوارا کرتیں بلکہ کچھ کر گزرنے کا عزم و استقلال کار گر ہوتا ہے۔ ملک کو آج تلک کوئی اسٹیٹسمین  نہیں ملا۔سیاست دان ہونے اور اسٹیٹسمین  ہونے میں بہت فرق ہے۔ہمارے سیاست دان تو ڈھنگ سے سیاست بھی نہ کر پائے۔ صرف دشنام طرازیوں اور انگشت نمائی کی سیاست ہور ہی ہے۔مطب میں دوائی نہیں مکتب میں پڑھائی نہیں لیکن زندہ آباد دونوں طرف ہے۔نعروں کے سحر میں جکڑی  اس قوم کی سیاسی ذہنی آبیاری بھی ہوئی تو محض دلفریب نعروں اور وقتی ہیجان برہا کرنے والی باتوں کا عنصر زیادہ غالب رہا۔ جس کا حقیقی زندگی  اور عوام الناس کے ایک بڑے حصے کو درپیش مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔گاڑیوں کے آگے ناچنے  کے کلچر نے اس قوم کے ایک بڑے طبقے کی دانشمندانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت کو زنگ آلودہ کر دیا۔" تیرے جاں نثار بے شمار " ایسے نعروں کی گونج میں خود عوام الناس کے مسائل دب کر رہ گئے اور وہ پھر بھی دیوانہ وار محو رقص ہیں۔ یہ وہ زہر قاتل ہے جو ہماری سیاسی جماعتوں نے عوام کے ذہنوں میں انڈیلا جس کے سبب آج سیاسی جماعتوں سے کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی تقاریر میں  جلیل القدر خلیفہ عمر بن خطاب سے ایک بدو کے کئے گئے سوال کا حوالہ تو بڑے طمطراق سے دیتے ہیں لیکن خود کوئی سوال سننا گوارہ نہیں کرتے۔ پاک سرزمین شاد آباد بھی رہ سکتی ہے  اس کشور کو حسین  بھی بنایاجا سکتا ہے، ارض  وطن،  عزم عالی شان کا نشان  بھی ہو سکتی ہے۔مرکز یقین ہو تو شادباد بھی رہا جا سکتا ہے۔سرزمین وطن کا نظام اخوت کی قوت پر ہو تو منزل مراد ہر پہنچ کر نہال و شاد باد بھی ہو سکتے ہیں۔یہ جو ستارہ و ہلال  کا پرچم ہے یہ ہی ترقی و کمال کا رہبر بھی ہو سکتا ہے یہ ہی ہمارے ماضی اور شان حال کا ترجمان بھی ہے، جا ن استقبال  میں اخلاص نیت ہو توخدائے ذوالجلال بھی اپنے سایہ عافیت میں رکھے گا۔ لیکن ان سب کا حصول دیانتداری اوراخلاص نیت پر ہے۔ "کچھ کرو تو سہی پانے کے لئے"۔