بجٹ کولفظوں کا گورکھ دھندہ اس لیے ہی کہاجاتا ہے اعداد و شمار کی ہیرا پھیری سے عوام کو عارضی مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن اس حد تک شعبدہ بازی جو اس بجٹ میں دکھائی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ایک طرف بجٹ میں فخریہ اعلان کیا گیا یہ ٹیکس فری بجٹ ہے اور مشکل معاشی حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا تھا اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد مزید ٹیکسز لگادئیے گئے۔ سب سے بڑا ہاتھ تو پنجاب کے سرکاری ملازمین کے ساتھ اس بجٹ میں ہو گیا۔ لیکن ٹھہریے۔۔۔ہاتھ ہو جانا محاورہ کسی چھوٹی موٹی دھوکہ دہی کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ یہاں تو باقاعدہ سرکار نے پنجاب کے سرکاری ملازمین کے حق پر ڈاکہ مارا اور مہنگائی میں پستے ہوئے پنجاب کے سرکاری ملازمین کو ایک سنگدلانہ اور بے حسی پر مبنی ظالمانہ فیصلے کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی۔پنجاب کے سرکاری ملازمین اور پنجاب کے اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اور پروفیسرز اسی ظالمانہ اور سنگ دلانہ فیصلے کے خلاف کچھ روز سے سراپا احتجاج ہیں۔بجٹ میں وفاقی حکومت نے گریڈ ایک سے بائیس تک تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ اور پینشن میں 17 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا۔یہ وہ فیصلہ تھا جس کی بنیاد پر بجٹ کے حوالے سے حکومت نے فوری طور پر تعریفیں سمیٹیں اور کہا گیا کہ اس معاشی مسائل کے دوران بھی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔اسی فیصلے کے تحت سندھ بلوچستان اور خیبر پختون خوا نے بھی اپنے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ اور پینشن میں 17 فیصد اضافے کا اعلان کیا۔اب جب کہ تین صوبوں نے وفاق کے پیش کردہ فارمولے کو اپنایا اور اپنے سرکاری ملازمین اساتذہ اور پروفیسرز کی تنخواہوں میں اسی شرح سے اضافہ کیا تو پنجاب کی نگران حکومت کو آخر کیا پڑی تھی کہ اس فیصلے کو رد کر کے ایک نیا فارمولا بنالیا گیا۔پنجاب حکومت کے پتھر دل معاشی ارسطووں نے تنخواہیں اور پینشن بڑھانے کا ایک ایسا گنجلک اور تہہ دار فارمولا بنایا جس نے ہر ممکن کوشش کی کہ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لیے جس معاشی آسودگی کا اعلان کیاگیا ہے ۔پنجاب والوں کو اس سے محروم رکھا جائے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ جب تینوں چھوٹے صوبوں نے وفاق کے پیش کردہ اس فارمولے پر عمل کیا تو پھر پنجاب نے جو بڑا صوبہ ہے جس میں زیادہ ریونیو اکٹھا ہوتا ہے، اور جو دوسرے 3 صوبوں کے نسبت زیادہ خوشحال ہے وہاں بجٹ میں کیوں اس فارمولے پر عمل نہیں کیا گیا۔اس کے علاوہ پینشن رولز اور لیو ان کیشمنٹ کے قواعد و ضوابط بھی تبدیل کیے گئے ہیں جو سراسر سرکاری ملازمین کے حق پر ڈاکہ مارنے کے مترداف ہے۔پورے جیون کو سرکار کی خدمت میں کھپا دینے کے بعد سرکاری ملازمین کے لیے ان کی پینشن اور گریجویٹی ہی ان کے لیے ایک سہارا ہوتی ہے اور اس پر ان کی تشویش بجا طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ اب 10 جولائی سے پنجاب بھر کے ہزاروں اساتذہ پروفیسر اور سرکاری ملازمین ا احتجاج کررہے ہیں۔آج چوتھا روز ہے کہ ہزاروں اساتذہ اور سرکاری ملازمین سخت گرمی کے موسم میں سڑکوں پر موجود ہیں لیکن نگران وزیراعلی محسن نقوی نے زحمت نہیں کی کہ وہ ان قابل احترام اساتذہ سے جا کر ملتے۔10 لاکھ سے زیادہ ملازمین اس فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں یہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر جولائی کے شدید گرم موسم میں سڑکوں پہ احتجاج کر رہے ہیں۔ پنجاب کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ان کی ابتدائی بیسک تنخواہ پر کیا گیا ہے جبکہ نوکری کے آغاز میں ابتدائی بنیادی تنخواہ تو بہت کم تھی اور اس کے حساب سے کیا گیا اضافہ مضحکہ خیز ہے۔تمام صوبوں میں تنخواہوں میں 35 فیصد موجودہ بیسک سیلری پر کیا گیا ،جبکہ پنجاب حکومت نے30فیصد اضافہ ابتدائی بنیادی تنخواہ پر دیا ہے ۔پینشنرز کے ساتھ زیادہ ظلم ہوا کہ 30فیصد کی بجائے یہ اضافہ پانچ فیصد تک کردیا گیا جو کہ جو پینشنرز کی معاشیں مجبوریوں کا مذاق اڑانے کے سوا اور کچھ نہیں مثلآ اگر کسی کی پینشن بیس ہزار ہے تو اسے چند سو روپے اضافی ملیں گے۔ صوبائی حکومت کے ناجائز اقدامات کے خلاف اساتذہ کا مطالبہ بظاہر بہت سادہ اور جائز ہے کہ ان کی تنخواہوں میں بھی 35 فیصد اضافہ کیا جائے جیسے باقی صوبوں کے سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں کیا گیا اور لیو ان کیشمنٹ اور پینشن کے رولز بھی وہی رکھے جائیں جیسے دوسرے صوبوں میں رکھے گئے ہیںتاکہ ریٹائرمنٹ پر ان کو ان کا پورا حق ملے۔ پاکستان کا 20 فیصد اشرافیہ طبقہ 17 کروڑ ڈالر کی مراعات پاکستان کے قومی خزانے سے حاصل کرتا ہے۔حال ہی میں صادق سنجرانی کے دستخطوں سے اشرافیہ کے مختلف نمائندے،جو ایوانوں میں بھی ہیں ان کی تنخواہوں میں لاکھوں روپے کا اضافہ ہوا ہے۔سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے یہ ہزاروں لوگ پاکستان کے عام آدمی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔جو 20 کلو کا تھیلا 3 ہزار میں خریدنے پر مجبور ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ان پر حکمرانی کرنے والا مقتدر طبقہ اس اذیت پسند کی طرح ہے جسے اس شعر میں مخاطب کیا گیا ہے دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا جناب نگران وزیراعلی پنجاب ایک لمحہ سوچیں کہ کیا احتجاج کرنے والے سرکار سے لاکھوں روپے کی مراعات طلب کر رہے ہیں ؟کیا لاہور کی سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے یہ استاد ,پروفیسر، یہ پنشنر، یہ سرکاری ملازمین اندرون اور بیرون ملک مفت سفر کا مطالبہ کر رہے ہیں یا سرکار کے کھاتے سے کروڑوں روپے کی لگڑری گاڑیاں مانگ رہے ہیں؟یا اشرافیہ کی طرح تاحیات مراعات کا کوئی مطالبہ کر رہے ہیں؟ یہ احتجاجی تو عام پاکستانی ہیں ان کے مطالبے پر حکومت سنجیدگی سے غور کرے اور اس مسئلے کو حل کر ے۔دھوپ میں جھلستے ہوئے لوگوں پر شیشے کا سائبان تاننے سے گریز کیا جائے۔