نوجوان دیہاتی علاقے کا رہنے والا تھا۔دیہات میں والد صاحب کی وسیع زمین اور کاشتکاری ہے۔ مگر وہ ایچیسن سے پڑھا، امریکہ سے اعلیٰ ڈگری حاصل کی، ساری عمر شہروں میں گزاری اور اب دیہات میں رہنا اس کے بس کی بات نہیں۔اس نے ایک سرکاری محکمے میں نوکری حاصل کر لی ہے اور خود کو مصروف رکھا ہوا ہے۔ پیسے کی کچھ کمی نہیں۔مجھے جب وہ اپنے بارے بتا رہا تھا کہ والدین چاہتے ہیں کہ میں گائوں آ جائوں اور کھیتوں کی دیکھ بھال کروں، مگر میں بالکل تیار نہیں۔ میں تو چاہتا ہوں وہ بھی شہر آ جائیں مگر وہ گائوں چھوڑنے کو تیار ہی نہیں۔چھوٹے چھوٹے سرکاری اہلکار جو ہمیشہ مصیبت کا باعث ہوتے ہیں ، میں اس ملازمت کی وجہ سے یہیں بیٹھا ان سے بھی نپٹ لیتا ہوں۔اب میری اس ملازمت کی وجہ سے وہ ہمارے گائوں آکر ہمیں دباتے نہیں غیر ضروری تنگ نہیں کرتے۔ اس کی مختلف باتیں سن کر مجھے دو قصے یاد آئے ایک قصہ میرے اپنے دوست کا ہے اور دوسرا میرے والدنے مجھے سنایا تھا۔ میرے دوست کے والد کی کوئی چار پانچ مربعے زمین تھی اور میرا دوست ان کو اکلوتا بیٹا تھا۔اس کے والد ایک دفعہ مجھ سے ملے تو بتانے لگے کہ تمہارا دوست بہت آرام طلب ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ میرے بعد اسے گائوں جانا دشوار ہو گابلکہ یہ گائوں نہیں جائے گا۔میں نے پچھلے تین چار سالوں میںاپنی ساری زمین پر باغ لگوا دیا ہے۔بہترین اور مہنگے پھل لگائے ہیں ایسے پھل کہ جن پر زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن آمدن بڑی معقول ہو جائے گی۔یہ اتنا ہی کرے کہ بس سال میں دو تین دفعہ چکر لگا کر نظر ڈال لے۔ باغ کی حفاظت بھی ہو جائے گی اور ٹھیکہ بھی جس کو دینا ہو دے آیا کرے گا۔ باغ لگانے پر میری بڑی محنت خرچ ہوئی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح میرے بیٹے کی زندگی آسان ہو جائے گی۔اس کے بعد وہ جب بھی ملتے، بتاتے کہ اب ٹھیکہ اتنا زیادہ ہو گیا ہے اور اس سال تو اتنی رقم آئی ہے۔ وہ رقم اور اپنی محنت کا شمار کرتے اور بہت خوش ہو کر اپنے باغ کے بارے بتاتے۔پھر ایک سال ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کو فوت ہوئے مہینہ ڈیڑھ گزرا تھا تو ان کا بیٹا، میرا دوست گائوں گیا۔ پندرہ بیس دن وہاں گزارے اور آکر دوستوں کو بتایا کہ وہ زمین، گھر اور دیگر ساری چیزیں بیچ آیا ہے اس لئے کہ سال میں کئی بار جانے کی سر درد وہ پال نہیں سکتا۔یہ سن کر مجھے بہت افسوس ہوا ۔لوگ تووراثت کی چیزوں کی حفاظت کرتے اور ان کو دل و جان سے چاہتے ہیں، مگر اس کا مزاج ، کیا کیا جا سکتا تھا۔یہ بات اس کے والد کو قبر میں بھی اگر پتہ چلی ہو گی تو وہ وہاں کرب کا شکار رہے ہوں گے۔ یہ شاید 1953 کی بات ہے۔ میرے والد سول سیکٹیریٹ میں کام کرتے تھے۔ ان کی ڈیوٹی جس برانچ میں تھی وہ اس وقت پی سی ایس افسروں کی پوسٹنگ ٹرانسفر ڈیل کرتی تھی۔والد صاحب بتاتے ہیں کہ ایک نیا بیج آئے ابھی تین چار ماہ ہوئے تھے کہ اس بیج کاایک نوجوان مجسٹریٹ میرے پاس آیا کہ یہ میری درخواست اور ساتھ دیگر کاغذات لف ہیں۔ مجھے گاڑی رکھنے کی اجازت دی جائے۔بڑا سستا دور تھا۔ مجسٹریٹ کی تنخواہ شاید ڈھائی سو روپے تھی اور اس تنخواہ کے بندے کو کسی صورت گاڑی رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تھی۔نوجوان کے جانے کے بعد میں نے اس کی درخواست دیکھی۔ یہ کیا کہ اس کی تنخواہ تو ڈھائی سو تھی مگر وہ سو سے زیادہ مربع بڑی زرخیز زمین کا مالک تھا۔وہ پانچ یا چھ بہن بھائی تھے اور سبھی کی زمین اتنی ہی تھی۔ ان کی ذاتی پانچ چھ فیکٹریاں تھیںجو سب بہن بھائیوں کی مشترکہ ملکیت تھیں۔ شہری جائداد بھی بہت تھی۔ اس اکیلے کی ماہانہ انکم اس وقت لاکھ کے قریب تھی جو اس زمانے کے حساب سے ایک بہت بڑی رقم تھی۔ اتنی زیادہ آمدن والے شخص کو گاڑی رکھنے سے کون روک سکتا تھا۔ اجازت نامہ ایک کارروائی تھی جو جاری ہو گیا۔ دو تین دن بعد نوجوان اجازت نامہ لینے آیا تو میں نے پوچھا کہ اس قدر آمدن کے ہوتے تمہیں ڈھائی سو کی نوکری کیوں کرنا پڑی۔وہ ہنس پڑا کہ آپ لوگوں کو ڈھائی سو نظر آتے ہیں۔مگر ہمارا مسئلہ ذرا مختلف ہے۔ہماری زمینوں پر کئی گائوں آباد ہیںاور سینکڑوں لوگ وہاں کام کرتے ہیں۔ فیکٹریوں میں بھی ورکرز کی معقول تعداد ہے۔ جو جائیداد شہر میں کرائے پر دی ہوئی ہے ،اس کے کرایہ دار بھی بعض اوقات کوئی مشکل ڈال دیتے ہیں۔ ان معاملات کے لئے ہمیں روز پٹواری، تھانیدار اور دیگر کئی سرکاری اہلکاروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ جب کبھی و ہ ہمارے ڈیرے پر آتے توہم بھائی قطار میں کھڑے ان کا ستقبال کرتے۔ ان کے اشاروں پر ہر کام کرتے، ہمارا مطلب ہوتا تھا۔ جاتے ہوئے پیسے تو لے جاتے مگر ساتھ ہی ٹرک بھر کر بہت سی چیزیں سمیت کر لے جاتے اور ہم یہ چیزیں انہیں فراہم کرنے کے پابند تھے۔مگر جب سے میں نے مجسٹریٹ کے طور پر ڈیوٹی شروع کی ہے، تو جب کوئی کام ہوتا ہے ، اس اہلکار کو اپنے پاس بلا لیتا ہوں۔ وہ سلام کرتا ہے۔ میرے کام کی مکمل رپورٹ مجھے دیتا ہے اور کوئی اہلکارمیرے یا میرے بھائیوں کی زمین پر غیر ضروری چکر لگانے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ ہزاروں روپے جو ہم غیر ضروری طور پر سرکاری اہلکاروں پر خرچ کرتے تھے، اب نہیں ہوتے اور عزت جو مجھے اور میرے خاندان کو اس ملازمت کی وجہ سے ملی ہے وہ اس کے علاوہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔ اس نے اجازت نامہ وصول کیا اور چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ سچ کہتا ہے ۔آدمی تھوڑا بہت اقتدار کے قریب بھی ہو تو لوگوں کے رویے بدل جاتے ہیں۔شاید یہی اس دنیا میں زندہ رہنے کا سنہری اصول ہے۔