اسد محمد خان کی ’’باسودے کی مریم‘‘ مجھ پر تقریباً ویسا ہی اثر کرتی رہی ہے جیسا اثر علامہ اقبال کی وہ رباعی جو انہوں نے آخری عمر میں سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوب کر لکھی تھی تُو غنی ازہر دو عالم من فقیر روز محشر عذر ہائے من پذیر گرتو می بینی حسابم ناگزیر از نگاہے مصطفیٰ پہنہاں بگیر ترجمہ:اے اللہ تو تمام جہانوں کا غنی ہے۔ روز محشر میری یہ درخواست قبول کر لینا کہ مجھ سے حساب نہ لینا۔ لیکن اگر میرا حساب اس قدر ضروری ہو تو مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے دور رکھ کر حساب لینا۔ مجھے ان کے سامنے شرمندگی سے بچانا‘‘۔ ’’باسودے کی مریم‘‘ میں نے پڑھی نہیں بلکہ اسے ضیاء محی الدین کی زبانی سنا ہے اور پھر اس کے بعد کبھی اسے پڑھنے کی ہمت نہیں پڑی۔ اس لیے کہ مریم کی اس کہانی میں جو کیفیت ہے، مکے مدینے سے جو وا رفتگئی عشق ہے اس کو جس خوبصورت اور دلنشیں انداز میں ضیاء محی الدین نے بیان کیا ہے، میری چشم تصوربھی یہ نقشہ نہیں کھینچ سکتی۔ باسودے کی مریم کا اثر مجھ پر بیش بہا ہوتا ہے۔ جب تک سنتا رہتا ہوں آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے ہیں۔ ضیاء محی الدین میرے لڑکپن کا ہیرو تھا۔ روایتی ہیروز سے مختلف۔ اس کی فلم ’’مجرم کون‘‘ آئی تو ہم ذوق و شوق سے اسے دیکھنے گئے، لیکن جنہیں محمد علی، وحید مراد اور ندیم کے چہروں کی عادت ہو چکی تھی، ان کی نظروں کو یہ چہرہ نہ بھایا۔ ہم نے اسی بہانے اس کی مشہور انگریزی فلم لارنس آف عریبیاً بھی دیکھ ڈالی اور آخر یہ کہہ کر سینما ہال سے باہر نکلے کہ ہالی ووڈ والے ویسے ہی مسلمانوں کو فلم میں کوئی بڑا کردار نہیں دیتے لیکن کسے خبر تھی کہ اس کی شخصیت کا جادو ایسا ہمارے سر چڑھے گا کہ آج اس کی موت کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ جیسے کوئی میرے کتب خانے کی خوبصورت ترین کتاب چرا کر لے گیا ہے۔ یوں تو اس کی آواز کا جادو آج بھی ہمارے پاس سائنس کے کرشمے کی وجہ سے محفوظ ہےؒ لیکن ایک جیتا جاگتا انسان تو ہر لمحے ایک نیا جادو جگاتا رہتا ہے۔ ہر سال کی آخری شام وہ لاہور کے علی انسٹیٹیوٹ میں گزشتہ بارہ ماہ میں منتخب کئے ہوئے نثرپاروں اور نظموں کو پڑھ کر’’ لحنِ دائودی‘‘ کا حسن بکھیرتا ہے۔ اس کا تحت اللفظ پڑھا ہوا کلام یا نثر ایسی ہوتی کہ اپنے اندر موسیقی کی چاشنی لیے ہوتی۔ مدتوں میں پاکستان ٹیلی ویژن کے جنرل منیجر فرخ بشیر کی سفارش سے تقریب کے منتظم نوید ریاض سے دعوت نامہ لے کر اسے سننے جاتا۔ ضیاء کو جس سیکولر لبرل گروہ نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا ان کو میرا وہاں آنا سخت ناگوار لگتا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے دعوت نامے سے بھی انکار ہونے لگا۔ میں بیورو کریسی کے جس مقام پر تھا میں دعوت نامہ زبردستی بھی وصول کر سکتا تھا کہ مجھے اس ’’گروہِ عشاق‘‘ کا بخوبی علم تھا کہ وہ کب اور کہاں کمزور پڑتے ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ گزشتہ دو دہائیوںسے میرے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے۔ ہر ادبی فیسٹیول یا تقریب میں مجھے اس لیے نہیں بلایا جاتا کہ بقول اکبر الٰہ آبادی ’’کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں‘‘ ۔ویسے بھی ان ادبی تقریبات جنہیں اب زبانِ انگریزی میں فیسٹیول کہتے ہیں۔ وہاں پر اس شخص، شاعر، ادیب یا ناول نگار کا نام شجر ممنوعہ ہے جس کی کلام یا تحریر میں کہیں کسی جگہ اسلام سے محبت کا گوشہ نظر آتا ہو۔ اقبال کا نام چند لمحوں کے لیے اگر کوئی لے تو چہروں پر ایسی ناگواری دیکھنے کو ملتی ہے کہ آدمی سب کچھ پڑھ لیتا ہے۔ اقبال جسے دنیا تسلیم کرتی ہے اگر وہ ان کے ہاں شجرِ ممنوعہ ہے تو میری کیا حیثیت، جس کے پلے میں شاعری کی ایک کتاب اور چند ڈرامہ سیریل ہیں۔ میں ضیاء محی الدین کے جادو کا اسیر تھا، اس لیے ان تمام پابندیوں کے باوجود اسے سنتا اور سر دھنتا تھا۔ کتنے ہی لازوال شہہ پارے ہیں کہ جنہیں اس نے ایسے پڑھا کہ سب کچھ ایک خوبصورت فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ کتنے ہی ایسے ادیب ہیں کہ جنہیں ضیاء نہ پڑھتا تو شاید ہم ان سے آشنا بھی نہ ہوتے جیسے محمد علی ردولوی۔ ردولوی صاحب کے اپنی بیٹی ’’ہما‘‘ کے نام خطوط اس نے ایسے انداز سے پڑھے کہ باپ اور بیٹی کے محبت بھرے رشتے کی ساری خوبصورتی اور کسک سامنے آ گئی۔ کتاب ناپید تھی، اسی شوق میں کسی سے فوٹو کاپی کروا کر حاصل کی۔ فیض احمد فیض اور ن م راشد کو جیسے ضیاء نے پڑھ دیا ہے، ایسا تو دونوں خود بھی نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ ان دونوں کی روح میں اتر گیا تھا اور وہاں سے جب باہر آیا تو اس کی زبان پر ان کا کلام ایسے جاری ہوا جیسے ان دونوں پر نازل ہوا تھا۔ اس کا ٹیلی ویژن پروگرام ضیاء محی الدین شو بھی ہمارے لڑکپن کی یاد ہے۔ ایک پروگرام میں پطرس بخاری کے بھائی اور ریڈیو پاکستان کے مربی و محسن زیڈ اے بخاری تشریف لائے تو عقدہ کھلا کہ ضیاء کی زبان و بیان پر دسترس اور کمال میں دراصل بخاری صاحب کا بہت ہاتھ ہے۔ یہ ضیاء محی الدین کا اعتراف تھا لیکن میں نہیں مانتا، اس لیے کہ اردو بولنا تو اسے بخاری صاحب نے سکھایا ہو گا مگر انگریزوں سے بھی بہتر انداز میں اسے شیکسپیئر پڑھانا کس نے سکھا دیا۔ اس کی زمین ہی زرخیز تھی اور ابوالخیر کشفی صاحب کے اس فقرے پر یقین کرنا پڑے گا جو انہوں نے لاہور میں اس پر مضمون پڑھتے ہوئے کہا تھا، ’’اللہ کے قادر مطلق ہونے پر یقین آ جاتا ہے کہ وہ ضیاء محی الدین جیسے خوش کلام کو فیصل آباد میں پیدا کر دیتا ہے‘‘۔ یہ فقرہ پڑھنے کے بعد کشفی نے مجھے کہا کہ پنجابی بڑے ظرف والے لوگ ہیں، اگر میں ایسا فقرہ کراچی میں اردو بولنے والوں کے درمیان بولتا تو فساد برپا ہو جاتا۔ ضیاء محی الدین چلا گیا۔ سب نے چلے جانا ہے۔ اللہ سب کا آخرت میں انجام اپنے ظرف کے مطابق بہتر کرے۔ اس کے جانے کے بعد سوچتا ہوں کہ اگر عالم ارواح میں کہیں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سجی اور ضیاء محی الدین کو بھی کعب بن زبیر کی طرح شرفِ باریابی مل گیا تو میں سوچتا ہوں کہ جیسے کعب نے قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ سنا کر حضور ﷺسے نہ صرف معافی حاصل کر لی تھی بلکہ اسے چادر بھی عطاء کی تھی، ایسے ضیاء محی الدین بھی ضرور کہے گا حضور اجازت ہو تو ’’باسودے کی مریم‘‘ پڑھ کر سنائوں۔ ٭٭٭٭٭