بھارت کی ریاست ہماچل پردیش میں ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ برصغیر میں یہ توسیعی مون سون کا دور ہے یعنی کم ازکم تین مہینے بارشیں۔ 4 ہزار سالہ خشک دور ختم ہونے کے بعد بھیگا دور شروع ہوا ہے تو اس کا نمایاں اثر خطے کے گرم و خشک علاقوں پر نمایاں ہے۔ 4 دریا (گھاگرا، ستلج، بیاس اور راوی) جس پر بھارت نے بند باندھ کر انہیں مکمل اپنی دسترس میں کرلیا تھا اب ان میں اتنا پانی آگیا ہے کہ تمام حدوں کو پھلانگ کر اپنے نقطہ انجام تک سیلابی کیفیت میں پہنچ سکے۔ اب ان علاقوں کی تو بن آئی ہے جہاں دہائیوں ریت اڑتی رہی ، زیر زمین پانی کھارا ہوا اور لوگ بھوک اور بیماری کے چنگل میں پھنسے تھے لیکن بھارت جس طرح دریا ڈیموں اور ہیڈ ورکس سے ملحقہ علاقوں کو لتاڑ رہاہے یہ منظر دیکھ کر دل پسیجتا ہے۔ دریا ستلج پر بنے بھاکرا ڈیم سے ایک دم دو لاکھ کیوسک سے لگ بھگ پانی چھوڑا گیا تو تباہی تو لازمی ہونا تھی۔نہری نظام کی تباہی کے علاوہ پانی شہروں میں داخل ہوگیا ہے۔ دوسال قبل کے بھارتی پنجاب میں تباہ کن سیلاب کے بعد یہ خدشہ بھی سر ابھار رہا ہے کہ اگر مون سون کی شدت میں آنے والے برسوں میں مزید شدت آئی تو ڈیموں کا کیا بنے گا۔ ہریانہ اور پنجاب سے حاصل ہونے والی فوٹیج اور تجزیوں اور تبصروں سے تاہم ابھی یہ نہیں لگتا کہ لوگوں کو احساس ہوا ہو کہ دریاوں پر بنے ڈیم اب مسئلہ ہیں ۔ بہاولپور میں ہرسال مون سون کی آمد کے ساتھ ہی ستلج دریا کے بہنے کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ دوسال پہلے یہ دریا اپنے جوبن پر بہا تو لوگوں کی خوشی دیدنی تھی۔ دریا میں پھول ڈالے گئے ، میلے کا سماں رہتا۔ ہمارے دوست ڈاکٹر عصمت اللہ شاہ تو معمول بنا لیتے ہیں کہ صبح اور شام دریا کنارے ہی گزارتے ہیں۔ دریا کو ترستے بہاولپور کے لوگ اخبار اور ٹی وی پر اختیار کیے گئے اس استدلال پر نہایت حیرت زدہ ہوتے ہیں اور قدرے غمگین بھی کہ یہ آبی دہشت گردی ہے۔ یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ بھارت صحرا میں سے گزرنے والے اس دریا کو ہڑپ ہی کرگیا ہے۔ سیلابی ریلا آئے گا تو ہی قدرتی جھیلوں میں پانی پہنچے گا، چراگاہیں سرسبز ہونگی اور زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوسکے گی۔ دہائیوں سے خشک دریا بہیں تو انہیں خوش آمدید کہنا بنتا ہے نہ کہ ان کی مذمت۔ تبت کے اسی ماخذ سے نکلنے والا دریا جس سے سندھ اور براہما پتر نکلتے ہیں، سارا سال بہنے والا دریا ہے لیکن اسے آمر ایوب خان نے خیر سگالی کے جذبے کے تحت بھارت کو دے دیا تھا۔ اسے ہی نہیں بلکہ راوی اور بیاس کو بھی۔ دریاوں کے استعمال کا عالمی قانون تو کہتا ہے کہ کوئی ریاست دریا کے پانی کا ایسا استعمال بھی نہیں کر سکتی جس سے اسکی چال اور بہائو میں فرق آئے لیکن یہاں تو پورا دریا ہی ڈکار لیا گیا۔ یہ کونسا قاعدہ اور قانون ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی رو سے بھارت مشرقی دریاوں میں پانی چھوڑنے کا تو پابند نہیں لیکن پاکستان اس امر کا پابند ہے کہ وہاں سے چاہے انڈسٹری، زراعت اور شہروں کا فضلہ بہہ کر آئے نہ اسے روک سکتا ہے نہ یہ مطالبہ کرسکتا ہے کہ یہ صرف صاف پانی کو ہی اپنی سرحدوں میں داخل ہونے دیگا۔ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کے سانحے سے شروع ہونے والی داستان دریاوں پر قبضہ کی صورت میں منتج ہوجاتی تو بھی صبر کیا جاسکتا تھا لیکن ظلم و جبر کی داستان ابھی جاری ہے۔ بھارت نے دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم ستلج پر بنایا ہے جہاں سے اس عظیم دریا کا پانی پنجاب، ہریانہ اور راجھستان تک تو پہنچتا ہے لیکن اس کے اصل وارث اسکی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ بہاولپور، جہاں یہ دریا ڈیلٹا بناتا ہے وہاں پر بھوک اور بیماری کا راج ہے کہ دریا جانے سے خوشحالی ہی روٹھ گئی ہے۔ میلسی لنک کینال سے محدود مقدار میں پانی ملتا ہے جس سے ششماہی اور سالانہ نہریں چلتی ہیں۔ رواں سال مئی میں ہونے والے ایک اجلاس میں پنجاب اور ہما چل پردیش کے وزرا نے فیصلہ کیا کہ ستلج کے پانی کو گھاگرا میں ڈال کر اسے گجرات تک پہنچایا جائیگا۔ گھاگرا وہ دریا ہے جو مون سون میں بہہ کر چولستان میں پہنچتا تھا اور یہاں چراگاہوں کو سرسبز رکھتا تھا لیکن اٹھارہ سو انچاس میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس پر ڈیم بناکر نہریں نکال لیں۔ پاکستان بننے تک اس دریا کو لوگ بھول ہی چکے تھے۔ انیس سو ساٹھ میں نہرو نے ایوب خان کو بہلا پھسلا کر سندھ طاس معاہدہ کرلیا تو تین نہیں چار دریا بھارت کی دسترس میں چلے گئے۔ دریاوں کی انسانی اور آبی حیات کے بارے میں جہالت جس کا اظہار آجکل پورے میڈیا پر دیکھنے کو مل رہا ہے یہ اسکا نتیجہ ہی ہے کہ ہم گھاگرا دریا کو بھول چکے ہیں جو چولستان کی رنگینیوں کا ذمہ دار تھا۔ ہمیں اس سے بھی سروکار نہیں کہ بھارت ستلج اور بیاس کا پانی دریا یمنا کی طرف موڑنا چاہتا یا گھاگرا کی طرف۔ اگر ہمارے ہاں ریاست کی اولین شرط، حب الوطنی، کا رتی بھر بھی مادہ ہوتو ہم بدلتے دور کے تقاضوں کے مطابق بھارت سے تقاضا کریں اور اسے عالمی سطح پر گھسیٹیں کہ وہ دریائوں کے بارے میں عالمی قوانین کا احترام کرے اور اسے اسکے ساتھ تعلقات کی بہتری میں شرط اول کے طور پر رکھیں۔ اگر وہ ستلج کا پانی گھاگرا کی طرف موڑنا چاہتا ہے تو اس سے تقاضا کریں کہ وہ اس دریا کو اس کے اصل راستے پر ہی بحال کرے جو چولستا ن سے ہوکر گزرتا ہے اور یہ کہ اس صورت میں بھارت بیاس کا سارا پانی پاکستان میں چھوڑے کہ دریا ستلج جہاں آجکل بہہ رہا ہے یہ بیاس کی پرانی گزرگا ہ ہے۔ تیسری بات جو اہم ہے وہ یہ کہ بھارت پاکستان میں اپنی انڈسٹری، زراعت اور شہروں کا آلودہ پانی نہ چھوڑے کہ اس سے ماحول تباہ ، زیر زمین پانی آلودہ ہوتا ہے اور خطرناک بیماریاں (کینسر، اعضا کا ٹیڑہ پن) پھیلتی ہیں۔