آج پاکستان کے سیاسی حلقوں میں سب سے زیادہ بحث اس بات پر کی جا رہی ہے کہ قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کی اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد عام انتخابات وقت پر منعقد ہوں گے یا نہیں؟ ان اسمبلیوں کی آئینی مدت 12اور 13اگست کو پوری ہو رہی ہے۔ یہ اسمبلیاں اگر اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہوتی ہیں تو آئین کے تحت 60دن کے اندر قومی انتخابات ہونا لازمی ہیں، اور اگر انہیں ان کی مقررہ مدت سے پہلے تحلیل کیا جاتا ہے تو 90دن کے اندر انتخابات کرانا پڑیں گے۔ اس لیے اس وقت سب کی نگاہیں مرکزی نگران سیٹ اپ پر اٹکی ہوئی ہیں۔ یہ نگر ان سیٹ اپ وقت پریعنی اکتوبر ، نومبرمیںالیکشن کروائے گا یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ مثلاََ سبھی کے علم میں ہے کہ کس طرح محکمہ اینٹی کرپشن کو استعمال کرتے ہوئے مخالفین پر چڑھائی کی جا رہی ہے، اس میں پرویز الٰہی کو گرفتار کرنا اور جیل سے باہر نہ نکالنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا ہے۔ اور پھر سب جانتے ہیں کہ کس طرح ایک جماعت کے کارکنان کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے، ان پر 9مئی کے واقعات کی آڑ میں پولیس کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ بلکہ پولیس کے ذریعے کس طرح چن چن کر سیاسی کارکنوں کو عبرت کا نشان بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح کے پی کے کی نگران حکومت پر بھی پیپلزپارٹی اور اے این پی کو شدید اعتراضات ہیں، پھر سندھ میں جو نگران حکومت بننے جا رہی ہے اُس پر ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کو اعتراض ہوگا۔ اور جو مرکز میں نگران سیٹ اپ بننے جا رہا ہے، اُس پر بھی تحریک انصاف کو شدید قسم کے اعتراضات ہوں گے۔ اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک جتنے نگران سیٹ اپ آئے ہیں سبھی پر اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں، خیر نگران سیٹ اپ پر الزامات تو لگتے ہی ہیں مگر موجودہ نگران سیٹ اپ جتنے بھی بن رہے ہیں، وہ یقینا تاریخ میں الگ تھلگ ہی ہوں گے۔ تاریخ کی بات ہو رہی ہے تو آگے چلنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ 1973ء کے آئین میں بنیادی طور پر نگران حکومت سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ پاکستان میں عام انتخابات سے قبل نگران حکومت بنانے اور اس نگران حکومت کی سربراہی میں نئے انتخابات کرانے کا تصور 1977ء کے بعد پروان چڑھا جب بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد نے تحریک شروع کی اور 1977ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر انہیں کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔1977ء میں جنرل ضیاء مارشل لاء کے 8 سال بعد 1985ء میں ہونے والے ملک کے تیسرے عام انتخابات جو کہ غیر جماعتی تھے، کا انعقاد کسی نگران حکومت کے بجائے فوجی صدر کی نگرانی میں ہوا۔ 1988ء میں ہونے والے پاکستان کے چوتھے عام انتخابات، صدر غلام اسحاق خان کی حکومت کی نگرانی میں ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیرِاعظم بنیں۔ آج تک جتنے بھی نگران سیٹ آئے خواہ وہ صوبوں میں ہوں یا مرکز میں، ہمیشہ تنازعات کا شکار رہے ۔ لہٰذامیرے خیال میں اگر ہم اُن ملکوں کی بات کریں جہاں نگران سیٹ اپ کا وجود ہی نہیں وہاں الیکشن کمیشن نسبتاََ بہتر انداز میں الیکشن کرواتا نظر آتا ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ دنیا کے ہر ملک میں انتخابات سے قبل نگران حکومت نہیں ہوتی، سوائے پاکستان کے، یہ سیٹ اپ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈ ا اور ہالینڈ میں مختلف اوقات میں قائم کیا گیا ہے، جس کی اصل ذمہ داری انتخابات کروانا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نگران حکومت صرف ان چند ممالک میں قائم ہوتی ہے جہاں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے۔ بہت سے ممالک میں حکومت میں شامل لوگوں کو نگران حکومت کا حصہ بھی بنایا جاتا ہے، جیسے کہ آسٹریلیا میں، جہاں وزیر اعظم خود حکومت کو الیکشن سے پہلے نگراں موڈ میں ڈال دیتے ہیں، یعنی ایک کام کرنے والی حکومت، اس کا مکمل یا کچھ حصہ۔ نیوزی لینڈ میں اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنا پڑتی ہے یا وقت سے پہلے تحلیل ہو جاتی ہے یا حکومت پارلیمنٹ یا مقننہ کا اعتماد کھو دیتی ہے۔ نگراں سیٹ اپ بہت مختصر مدت کے لیے قائم کیا جاتا ہے، لیکن کبھی دھاندلی کا کہیں الزام نہیں لگا بلکہ الیکشن کی شفافیت کے حوالے سے نیوزی لینڈ کا چوتھا نمبر اور ہمارا 113واں ہے۔ نگران سیٹ اپ کینیڈایا ہالینڈ میں بھی بنتا ہے، مگر مجال ہے کہ کوئی ان کے انتخابی پراسس پر انگلی اُٹھالے۔ اورپھر بھارت میں انتخابات سے قبل کسی قسم کی عبوری یا نگراں حکومت کا کوئی تصور نہیں ہے، یہاں انتخابات کی تاریخ کے بعد حکومت کوئی بڑا فیصلہ نہیںلیتی، ایسے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے جس سے کسی پارٹی کو فائدہ پہنچے یا الیکشن کی غیر جانبداری پر سمجھوتہ ہو ،بھارت میں زیادہ تر وزرا ء حکومت ختم ہوتے ہی اپنی وزارتیں چھوڑ کر انتخابات کی تیاری شروع کر دیتے ہیں، الیکشن کمیشن بااختیار ہوتاہے، اگرکوئی ممبر یہ سوچتا ہے کہ حکومت الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے، یاوہ اس کی جگہ بھی لے سکتی ہے تو انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد حکومت الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر معمولی تقرریاں یا تبادلے بھی نہیں کر سکتی، مگر یہاں کی نگران حکومتوں نے تو اس حوالے سے حد ہی کر دی ہے۔ ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان نے تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کی جبکہ کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا اب بھی برطانوی ولی عہد کے ماتحت کام کر رہے ہیں لیکن برطانیہ میں ایسا کوئی نگراں حکومتوں کا سیٹ اپ نہیں، دوسری طرف دولت مشترکہ کے دیگر رکن ممالک میں نگراں حکومتوں کا نظام نظر نہیں آتا۔ بہرکیف اس وقت سسٹم کو تو نہیں بدلا جا سکتا، مگر اس وقت مشاورت سے ایسے نگران سیٹ اپ (مرکز، سندھ اور بلوچستان میں)متعارف کروائے جائیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ ورنہ ایک بار پھر ہمیں دھاندلی زدہ الیکشن کی شنید سنائی جا رہی ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ تمام جماعتیں مل کر الیکشن کمیشن کو ہی اتنا مضبوط بنا دیں کہ کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے۔ چونکہ ہمارا الیکشن کمیشن مضبوط نہیں ، اس لیے اس پر لوگوں کو تحفظات ہیں ، اسی الیکشن کمیشن کے سامنے نگران حکومت ترقیاتی فنڈ بھی جاری کرتی ہے، من پسند افسران کے تبادلے بھی کر رہی ہے، پولیس اور انتظامیہ کا بے دریغ استعمال بھی کر رہی ہے، مگر کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ خیر یہ تو اپنے اپنے ظرف کی بات ہے ورنہ انہیں اگر عوام کی پرواہ ہوتی تو یہ کب کے الیکشن کروا چکے ہوتے۔ انہیں تو یقین مانیں قرضہ ملنے پر خوشی اس لیے ہے کہ انہوں نے کھانا ہے اور عوام نے ادا کرنا ہے۔ مطلب! پیسے عوام کے لگتے ہیں، اور عیاشیاں ان کی ہوتی ہیں۔ ہم پہلے ہی بین الااقوامی دبائو کا شکار ہیں، مغربی ممالک ہم پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں، وہ ہماری سیاسی جماعتوں پر ہونے والی ’’سختیوں‘‘ کو بھی دیکھ رہے ہیں اور الیکشن سسٹم کو بھی مانیٹر کر رہے ہیں۔ بادی النظر میں اگر اس بار شفاف الیکشن کروا دیے جاتے ہیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہم اگلے پانچ سال تک کم از کم سیاسی استحکام ضرور لے آئیں گے ورنہ ہمارا اللہ ہی حافظ ہوگا!