کتاب کے ساتھ بہت سا وقت اب انٹرنیٹ پر بھی مطالعے میں گزرتا ہے جاپان کے سکولوں کے حوالے سے ایک دلچسپ رپورٹ پڑھی ۔جاپان دنیا کا سب سے زیادہ ہائی ٹیک ملک تصور کیا جاتا ہے وہاں آج بھی سکول کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر مختلف فنون کی تربیت دی جاتی ہے ،یہ وہ فنون ہیں جو صدیوں سے جاپان کی تہذیب اور روایت کا حصہ رہے ہیں۔جیسے اوری گامی یعنی کاغذوں سے کھلونے اور مختلف اشیاء بنانا،پیتل سے اشیاء بنانا مٹی کے برتن بنانا وغیرہ۔ اس کے ساتھ باغبانی بھی جاپان میں تعلیمی نصاب کا حصہ ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت جب پوری دنیا ڈیجیٹل کلچر اختیار کر رہی ہے وہاں جاپان نے اپنے سکولوں میں ہاتھ سے کرنے والے ہنر اور کرافٹ کو نصاب کا حصہ کیوں بنایا ؟اس کی دو وجوہات ہیں۔جاپان ان ملکوں میں شامل ہے جس کو اپنی تہذیب روایات اور رسم و رواج پر ہمیشہ فخر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں بھی صدیوں پرانی تہذیب اور روایات کو سکھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اور سکول کے نصاب کا حصہ بنا کر بچوں کو پرانی روایات سے آشنا کرانے سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا۔مختلف تعلیمی مدارج کے طالب علموں کو ہاتھ سے آرٹ اور کرافٹ سکھانے کے پیچھے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے ۔اب بہت سا وقت ڈیجیٹل کلچر میں بہت سا وقت سکرین پر گزرتا ہے جو ذہنی انتشار کا باعث بھی بنتا ہے۔ایسے میں سکرین سے ہٹ کر ہاتھوں کا ہنر اختیار کرنا یا کوئی تخلیقی مشغلہ اختیار کرنا ایک طرف بہترین مراقبہ ہے جو ذہنی سکون کا باعثِ بنتا ہے تو دوسری طرف اس سے شخصیت میں توازن اور ملائمت پیدا ہوتی ہے۔ جاپان میں اخلاقیات کو باقاعدہ طور پر نصاب کا حصہ بنایا جاتا ہے رول پلے کے ذریعے بچوں کو زندگی کے بارے میں چھوٹی چھوٹی اقدار سکھائی جاتی ہیں۔ ایک ویڈیو دیکھی جس میں کلاس روم کو بس کا ماحول دیا گیا تھا۔تمام بچے مسافروں کی طرح سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک بچہ ڈرائیور تھا اتنے میں ایک بچہ جو بزرگ کا روپ دھارے ہوئے ہیں بس میں سوار ہوتا ہے اسے سیٹ نہیں ملتی۔ تھوڑی دیر میں ایک بچہ سیٹ پر بیٹھا ہوا ایک بچہ بزرگ کے احترام میں کھڑا ہو جاتا ہے اسے اپنی سیٹ دے دیتا ہے۔یہ بچے ابھی عملی زندگی سے بہت دور چھ سات سال کی عمر میں ہی اعلی اخلاقی اقدار رول پلے کے ذریعے سیکھ رہے ہیں۔صرف ب نصیحتیں کر کے بچوں کو کوئی بھی چیز ذہن نشین نہیں کرائی جا سکتی جبکہ رول پلے کر کے ان کو کسی کہانی کا حصہ اور کردار بنا کے اپ بچوں کو اخلاقی اقدار سکھا سکتے ہیں۔ اب ہم اپنے نظام تعلیم کی طرف آجاتے ہیں جہاں صرف طالب علموں کو نمبروں کی دوڑ کے چوہے بنا دیا جاتا ہے اور عملی زندگی کے ہمارے نصاب میں ان تمام چیزوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ایک طرف پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نصاب کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی از حد ضرورت ہے تو دوسری اخلاقی اقدار کو نصاب کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔روزانہ صبح لاکھوں پاکستانی اپنے بچوں کو سکول چھوڑتے ہیں سکول سے لے کے آتے ہیں۔ہزاروں روپے ان کی ماہانہ فیسوں کی مد میں ادا کرتے ہیں ۔ ان کے روزانہ کے سکول کے خرچے برداشت کرتے ہیںلیکن ان تمام اخراجات کے بدلے میں ان کے بچے کیا سیکھ رہے ہیں۔ ہمارے بچے 16 سال اسکول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں کالج اور یونیورسٹی جاتے ہیں مگر بنیادی انسانی اقدار بھی ان اداروں سے نہیں سیکھتے۔کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک ٹرسٹ اسکول نے مدعو وہاں مجھے حیرت ہوئی کہ عملی زندگی کے امور اور ہنر کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے اور طالب علموں کو تمام جدید تقاضوں کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ کچن گارڈننگ سکھاتے ہیں کچن سے متعلقہ امور سکھاتے ہیں بلاک پرنٹنگ سکھاتے ہیں اور کء طرح کے ہنر سکھاتے ہیں۔ سکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک طالب علموں کو تخلیقی مشاغل میں مصروف رکھنا چاہیے اور اسے بھی باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔نصاب کے طور پر انہیں پینٹنگ ،باغبانی باورچی خانے سے متعلق ہنر تو لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو سکھانے چاہیئں۔ جاپان کے تعلیمی اداروں میں ٹائم مینجنٹ بھی باقاعدہ طور پر پڑھائی اور سکھائی جاتی ہے۔ یہ سلیقہ ہمارے طالب علموں کے ساتھ ساتھ ان کے بڑوں کو بھی سکھانے کی ضرورت ہے جو عملی زندگی میں وقت کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ عملی زندگی میں کام آنے والے کچھ اور ہنر جو میرے نزدیک ہر سطح پر نصاب کا۔حصہ ہونا چاہیں وہ مندرجہ زیل ہیں اپنی چیزوں کو اور اپنے آس پاس کے ماحول کو کیسے ترتیب میں رکھنا ہے، پرانی چیزوں کو کس طرح ڈی کلٹر کرنا چاہیے۔اسی طرح انسانی تعلقات میں بھی توازن کیسے قائم رکھنا چاہیے۔سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ہنگامہ کی گہما گہمی میں اپنے کام پر فوکس کس طرح کرنا ہے۔ اسی طرح اعتماد بھی وہ خوبی ہے جو سکھائی جا سکتی ہے۔ گفتگو کا ہنر بھی سکھانا چاہیے مکالمے میں اختلاف کو کیسے برداشت کرنا ہے کامیاب زندگی گزارنے کا بہت اہم ہنر ہے۔آج طالب علم کے ہاتھ میں سمارٹ فون موجود ہے ۔سمارٹ فون کا ذمہ دارانہ استعمال سکھانے کی تربیت بھی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔یہ وہ ہنر ہیں جن کی عملی زندگی میں ہر قدم پر ضرورت پڑتی ہے مگر ہمارے طالب علم 16 سال کی تعلیم کے بعد ان میں سے کوئی ایک ہنر بھی سیکھ کر تعلیمی اداروں سے نہیں نکلتے۔کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ ہر سال ہزاروں طالب علم تعلیمی اداروں سے صرف ہاتھوں میں ڈگریاں لے کے نکل رہے ہیں زندگی گزارنے کا سلیقہ اور قرینہ کیا ہے وہ اس ہنر سے نا بلد ہیں۔