انسانوں کی غلامی کا فیصلہ نہ ہی کوئی باڑ کر سکتی ہے,نہ کوئی دیوار,نہ ویٹو,نہ نیٹو,نہ کوئی عدالت نہ کوئی حکومت۔تاریخ بتاتی ہے جب بھی انسان اپنی آزادی کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ نکلا یہ سب رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ ہمت مرداں ،مدد خدا انسان مسلمان ہو یا عیسائی یا سکھ اس وقت غلام نہیں رکھا جاسکتا جب تک وہ خود غلامی پر راضی نہ ہو جائیں۔بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے مودی سرکار کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ یہ فیصلہ مایوس کن ہونے کے باوجود حیران کن نہیں ہے۔ یہ وہی عدالت ہے جس نے افضل گرو کی سزائے موت کی توثیق کی، اس حقیقت کے باوجود کہ بھارتی چیف جسٹس کا اپنا اعتراف کہ مبینہ جرم کے ثبوت حتمی نہیں تھا اور یہ کہ فیصلہ ’’قوم کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے کیا گیا‘‘۔ یہ وہی عدالت ہے جس نے چند برس قبل ایک فیصلہ سناتے ہوئے ہندو ئوں کو بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کا حق دیا تھا۔ جموںں کشمیر کی قانونی حیثیت کے بارے میں موجودہ فیصلہ ان قانونی ماہرین کے لیے ایک جھٹکے کے طور پر آیا جنہوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کی قابلیت پر اعتراض کیاتھا۔ بھارتی عدالتوں سے منصفانہ فیصلے کی توقع رکھنے والا کوئی بھی فرد یا گروہ اپنی کم علمی کا مظاہرہ کر رہا ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی بی جے پی کی حکومت نے ہندوتوا کے ملبے تلے دباکر رکھ دی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے دائرہ کار میں اور ججوں کے لیے صرف فیصلہ سنانے کا م باقی رہ گیا ہے۔ اگرچہ بہت زیادہ توقع کی جا رہی تھی کہ بھارتی حکومت متعصبانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی۔ اس خیال کے پیچھے تاریخ کے ناقابل تردید دلائل موجود ہیں۔بھارتی حکمران اقوام متحدہ میں اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ کشمیر کا فیصلہ ہوناابھی باقی ہے اور یہ کہ جموں کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔موجودہ فیصلہ دنیا میں آزادی کی متلاشی اقوام اور اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے جو مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی فصاحت و بلاغت کے ساتھ وکالت کرتے ہیں۔ بھارت کی موجودہ حکومت کے توسیع پسندانہ عزائم سب کو نظر آرہے ہیں ۔ یہ عزائم پورے خطے کے لیے نقصان دہ،اورتباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں جس میں تین جوہری طاقت والی ریاستیں شامل ہیں۔ اس خوفناک فیصلے سے کسی کے ذہن میں کوئی شک نہیں رہناچاہیے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کا پرامن حل چاہتا ہے ۔ یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ جموں کشمیر کے عوام کسی طور بھی بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے،بھارت سے نجات کے لیے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے۔مقبوضہ جموں کشمیر کا کوئی گھر ایسا نہیں جہان سے جنازہ نہ اٹھا ہو۔جموں کشمیر کے منظر پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ کشمیر کی خاکستر میں چھپی چنگاری کسی وقت بھی شعلہ جوالہ بن سکتی ہے اور اس باربھارت کے لیے میدان مختلف ہو گا۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے اگرچہ اپنی ساکھ برباد کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اس خطے کے امن کو قائم رکھنے کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو اس کے مذموم عزائم سے روکنے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کرے۔ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ بالترتیب 24 جنوری 1957 اور 2 دسمبر 1957 کو منظور کی گئی اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 122 اور 126 کے سراسر خلاف ہے۔ یہ قراردادیں ریاست جموں و کشمیر کی متنازحیثیت کو تبدیل کرنے کے یکطرفہ اقدام کو رد کرتی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی بھی طرح سے کشمیریوں کے بھارتی قبضے سے آزادی حاصل کرنے کے جذبے کو پست نہیں کر سکتا۔ آزادی، امن اور انصاف کی مشعل جموں و کشمیر کے عوام کے دلوں میں جلتی رہے گی اور ان ہولناک فیصلوں سے نہیں بجھائی نہیں جا سکتی۔ بھارت جیسے منتشر الاقوام ملک ایسے فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوتے۔ یہ بات طے ہے کہ بھارت میں قانون کی حکمرانی اور نظام عدل کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔ بھارتی حکام احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں اگر انہیں یہ خیال ہے کہ ان کی حماقتوں اور بزدلانہ فیصلوں سے آزادی کی آوازوں کو دبایا جا سکتا ہے تو یہ ان کی بھول ہے۔ حالیہ تحریک میںکشمیریوں نے ایک لاکھ سے زائد جوانوں کا خون پیش کیا ہے اور وہ کسی بھی صورت میں آزادی اور انصاف کے لیے اپنی پرامن جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ اس نامعقول فیصلے سے جموں کشمیر میں جدوجہد کو مزید تقویت ملے گی ۔یہاں کے عوام اسے اس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ یہ فیصلہ دنیا کو کرنا ہے کہ آیا وہ اس جدوجہد کے تباہ کن نتائج کو ترجیح دیتی ہے یا وہ کشمیر میں امن، سکون اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے بھارت کے ہاتھ روکتی ہے ۔ عالمی طاقتوں کو یاد ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے 10 اگست 20219 کو کہا تھا کہ 'کشمیرپر اقوام متحدہ کی پوزیشن چارٹر اور قابل اطلاق اقوام متحدہ کی سلامتی کے تحت چلتی ہے۔ ‘ جموں کشمیر کے موجودہ حالات پر نظر رکھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ کشمیر کافیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق نہ کیاگیا توبھارت کے لیے یہ گلے کی ہڈی بن جائے گا۔عسکریت کا وہ راستہ جو فی الوقت بند نظر آتا ہے کسی وقت بھی کھل سکتا ہے اور اس کے کھلنے پر بھارت ایک بار پھر ۱۹۹۲ کی پوزیشن سے بھی بدتر صورت حال کا شکار ہو جائے گا۔صلح جو کشمیریوں کے گلے کاٹ کر ،لاکھوں کی تعداد میں قابض فوجیوں کے ساتھ بھارت جیسا ملک کب تک عدالتوں کے پیچھے چھپتا رہے گا۔ ابھی وقت ہے کہ اقوام عالم اپنا کردار ادا کر کے خطے کے امن کو یقینی بنا لیں۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ بات طے شدہ ہے کہ جموں کشمیر کے عوام کبھی اور کسی صورت بھارت کے ساتھ نہیں رہ سکیں گے۔یہ نوشتہ دیوار مودی حکومت آج پڑھ لے تو بہتر ہے،قوموں کی زندگی میں سبق حاصل کرنے کے کچھ لمحات ہوتے ہیں اور وہ لمحے اب بھارتی حکمرانوں کو میسر ہیں۔انسانوں کی غلامی کا فیصلہ نہ ہی کوئی باڑ کر سکتی ہے,نہ کوئی دیوار,نہ ویٹو,نہ نیٹو,نہ کوئی عدالت نہ کوئی حکومت۔تاریخ بتاتی ہے جب بھی انسان اپنی آزادی کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ نکلا یہ سب رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ ہمت مرداں ،مدد خدا انسان مسلمان ہو یا عیسائی یا سکھ ،اس وقت غلام نہیں رکھا جاسکتا جب تک وہ خود غلامی پر راضی نہ ہو جائیں!!