مملکت پاکستان میں زرعی شعبے میں انقلاب لانے کیلئے ا فوج پاکستان نے لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم تیار کر لیا ہے جس کے تحت جدید کاشتکاری کے متعدد منصوبوں پر کام کا آغاز ہو گیا ہے۔افواج پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل سٹریٹیجک پراجیکٹس کی زیر نگرانی ایل آئی ایم ایس سینٹر آف ایکسیلنس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، منصوبے کے تحت ملک بھر میں 2 ٹریلین روپے کی معاشی سرگرمیاں ہونگی، زراعت کے شعبے میں 3 ارب ڈالرز تک غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی جبکہ مقامی سرمایہ کاری اسکے علاوہ ہو گی۔ مملکت پاکستان کے زرعی شعبے کوجدید ترین ٹیکنالوجی پر ترقی دینے کیلئے ملک بھر میں جس 44 لاکھ ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے اس میں 13 لاکھ ایکڑ پنجاب، 13 لاکھ ایکڑ سندھ، 11 لاکھ ایکڑ خیبر پختونخواہ جبکہ 7 لاکھ ایکڑ زمین بلوچستان میں موجود ہے۔منصوبے کے تحت 95 فیصد چھوٹے کسان کو ٹارگٹ کرکے فائدہ پہنچایا جائے گا جس کے کم رقبے میں زیادہ پیدوار کیلئے اسے سہولیات اور معلومات فراہم کی جائیں گی، اب تک ملک بھر کے 40 لاکھ کسانوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا چکا ہے جس میں انکے رابطہ نمبرز بھی شامل ہیں۔ابتدائی طور پر پنجاب کے محکمہ زراعت کے 3700 ملازمین آن بورڈ آچکے ہیں جبکہ دیگر صوبوں کے محکمہ زراعت کے ملازمین کے بھی اسکا حصہ بنایا جائے گا، اس انقلابی اقدام کے تحت زمین، فصلوں، موسم، پانی کے ذخائر، کیڑوں کی روک تھام پر ایک ہی چھت تلے کام کیا جائے گا، ملک بھر میں 2000 سے زائد لارج سکیل فارمز قائم کئے جائیں گے۔اس حوالے سے مختلف شعبوں کے ماہرین جن میں چار ممالک کے کنسلٹنٹس بھی شامل ہیں، ان کے تعاون سے جدید ٹیکنالوجی اور آبپاشی نظام کے مناسب استعمال سے ایسی ترقی لائی جائیگی جس سے نہ صرف خوراک کی کمی پوری ہو گی بلکہ ملک میں خوراک کے بڑے ذخائر رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ کئی رپوٹس کے مطابق پاکستان جو کہ سالانہ 10 ارب ڈالرز کی زرعی درآمدات کرتا ہے، ان درآمدات کے متبادل کے طور پر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑی سپورٹ ملے گی۔آج پاکستان میں فوڈ سیکورٹی کی یہ صورتحال ہے کہ گندم کی مانگ 30.8 ملین ٹن سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ حالیہ پیداوار 26.4 ملین ٹن سے بھی کم ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 36.9 فیصد پاکستانی خوراک کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 18.3 فیصد پاکستانی عوام کو خوراک کی کمی میں ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔دوسری جانب پاکستان میں کپاس کی پیداوار بھی گزشتہ 10 برس میں 40 فیصد تک گر چکی ہے، ایسی صورتحال میں ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھی جس سے جدید کاشتکاری کے ذریعے نا صرف فوڈ سیکورٹی کو بہتر بنایا جا سکے بلکہ ملکی معیشت کو بھی سہارا دیا جائے۔اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر میں 80 فیصد ہائبرڈ بیجوں کا استعمال ہو تا ہے جس سے پیداوار میں 30 سے 50 فیصد تک اضافہ ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں صرف 8 فیصد ہائیبرڈ بیج استعمال کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بیجوں کی موجود تعداد 7 لاکھ ٹن ہے جبکہ اس کی ضرورت 17 لاکھ ٹن ہے۔ 1960ء اور1970ء کی دہائی میں زرعی انقلابِ کے نام سے معروف دَور نے دنیا میں خوراک کی پیداوار کے طریقے میں انقلابی تبدیلی بپا کی۔ اس کے نتیجے میں زرعی صلاحیتوں میں زرعی ممالک میں کئی گنا اضافہ ہوا اور لاکھوں لوگوں کو کھانا میسرآیا۔ جب دنیا میں تکنیکی جدت کو متعارف ہوا تو آنے والی نسلوں کے لیے پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے زرعی اداروں کا قیام ممکن ہو سکا۔اسی دوران سمندروں کی مسافت پر واقع میکسیکو میں امریکی سائنسداں نارمن بورلاگ کی قیادت میں زرعی تحقیق میں بڑی کامیابیاں مل رہی تھیں۔ گندم کی نئی،لچکدار اور وافر اقسام کی تیاری کے سلسلے میں ان کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ ساٹھ اورستر کی دہائی نے زرعی انقلاب پیدا ہونے سے دنیا کی کایا پلٹ دی ۔دنیاکی دیہی آبادیوں پر انقلابی اثر ہوا ۔غذائی اجناس کی زیادہ پیداواراور زرعی آمدنی میں اضافے اور دیہی غربت میں تیزی سے کمی کا باعث بنتی ہے۔ یوںزرعی انقلاب نے مجموعی اقتصادی ترقی کو رفتار دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ چاول اور گندم کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام میں سرمایہ کاری کے سبب خوراک کی فراہمی میں ڈرامائی بہتری آئی اوردنیاکے کئی ممالک غذائی اجناس میں خود کفیل ہو گئے اور آج وہ خوراک کا ایک بڑے برآمد کنندگان ہیں۔ ان ممالک کے عوام اب بھوکے نہیں رہتے، اور اب انہیں قحط کے خطرے کا سامنا بھی نہیں ہے۔زرعی انقلاب پیدا ہونے سے کئی زرعی ممالک نے متعدد فصلوں اور پھلوں کیلئے جینیاتی وسائل کے مفت تبادلے کو شامل کرنے کی غرض سے اپنے رشتوں کو وسعت عطا کی ہے،زرعی ماہرین کے درمیان عمدہ سائنسی تعاون بھی وجود میں آیا۔ زیادہ سے زیادہ اناج دینے والے بیج ، کیڑے مار دوا کی اثر انگیزی میں بہتری اور زرعی مشینوں کے استعمال کے شعبوں میں یہ تعاون آج بھی موجود ہے ۔ ایک بہت بڑی زرعی اراضی کے حامل مملکت پاکستان میں ایسے بہترین دماغ اورزرعی ماہرین کوروبہ کارلانے کی ضرورت ہے جوملک میں غذائی اجناس کے چیلنجوں سے نمٹنے اور مستقبل کی نسل کو پائیدار اور ماحول دوست طریقے سے کھلانے کے لیے حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کر سکے۔یہ وقت ہے کہ مملکت پاکستان کی نوجوانوں نسل کوزرعی شعبے میں شامل کیا جائے تاکہ سا ئنسی اختراع کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے کے کاروبار کو درپیش دشواریوں کاخاتمہ کیاجاسکے ۔ زرعی ترقی پر توجہ مرکوز رکھنے سے پاکستان میں دیہی غریب کسانوں اور شہری صارفین کی زندگیوں پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوگی۔ پاکستان زرعی تحقیق اور اختراع پر خصوصی توجہ دیکر ہی اپنی معیشت کوتیزی سے مستحکم کر سکتا ہے۔ اس طرح ایک زرعی پاکستان کوچست اور درست معاشی ملک میں بدلایا جاسکتا ہے ۔