منٹو اور کرشن چندر آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ملازم تھے۔ دونوں کو شوق چُرایا کہ نیا سوٹ سلوانا چاہیے مگر جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔افسانے چھاپنے والے ناشر وقت پر معاوضہ نہ ادا کرتے تھے۔طے پایا فلم پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔دونوں نے مل جُل کر ایک فلمی کہانی لکھی۔"بنجارہ" نام تھا اس کا۔کرشن چندر کی یہ پہلی کوشش تھی۔دونوں اپنی کہانی کا مسودہ لے کر سیٹھ جگت نارائن،مشہور فلم ڈسٹری بیوٹر کے پاس پہنچے جو پروڈیوسر بھی تھا۔باقی واقعہ کرشن چندر کے مطابق"کہانی سُن کر سیٹھ نے کہا، کہانی بہت اچھی ہے۔ہم خرید لیں گے۔۔۔لیکن منٹو صاحب، آپ نے مِل کے منیجر کو بہت بُرا بتایا ہے۔ اسے اچھا دکھانا چاہیے،ورنہ مزدوروں پر بُرا اثر پڑے گا" ۔منٹو" تو اُسے اچھا دکھا دیں گے"۔کرشن چندر حیرت سے منٹو کو تکنے لگے۔کرشن چندر کے مطابق" میں کہنے والا تھا ،یہ کیسے ہو سکتا ہے"؟ منٹو نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔سیٹھ صاحب پھر بولے "اور یہ مینجر کی جو بیوی ہے،یہ اگر اس کی کنواری بہن ہو اور ہیرو سے پریم کرے۔ ایک ویمپ کے موافق،کیسا رہے گا"؟منٹو پھر بولے "بہت اچھا، بہت ہی اچھا"۔ میں پھر حیران رہ گیا۔ یہ وہی منٹو ہے جو کسی کے لیے اپنی سطر تو کیا، ایک حرف بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔اس کے افسانے جوں کے توں شائع ہونے چاہیں،ورنہ وہ افسانہ واپس لے لے گا۔کیا یہ وہی منٹو ہے؟ میں(کرشن چندر) حیرت سے اس کی طرف تکنے لگا۔جب ہم سیٹھ سے مِل کر باہر آ گئے تو منٹو نے کہا"یہ ادب نہیں ہے،یہ فلم ہے جو پڑھے لکھے ،ذہین اور ادب شناس لوگوں کے ہاتھ میں نہیں۔اس لیے فلم میں ماں کو بہن اور بہن کو ہیروئن بنا دینا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔سمجھے؟ ادب کی خدمت کرو اور فلم سے روپیہ بنائو۔اب بولوتمہیں سوٹ چاہیے کہ نہیں؟ چاہیے (کرشن چندر بولے) تو فلمی کہانی میں تبدیل ضرور ہو گی"۔"ضرور ہو گی بھائی"۔ ایک منشی سے لے کر کہانی کار تک منٹو نے ممبئی کی فلم نگری کو قریب سے دیکھا۔اس کا مشاہدہ اور حساس نظر بہت گہری تھی۔نظر باریک ہو تو گلیمر کے سب کپڑے اُتر جاتے ہیں۔ گدھے جیسی بصیرت والا مالدار سیٹھ، محبت پیشہ طوائف نما ہیروئنیں، اخلاق سے عاری اداکار، غنڈے، تماش بین، ایکسٹرا سپلائرز، مکرو فریب، نشہ زدہ ماحول اور جسمانی کثافتیں۔ اس پر سٹوڈیو کے غریب ملازمین، محنت کش مزدور اور فلمی صحافی۔ ان سب کو منٹو نے ممبئی میں اپنے گیارہ سالہ قیام کے دوران قریب سے ،بہت قریب سے دیکھا۔ منٹو کچھ زیادہ کامیاب سکرپٹ رائیٹر تو نہ تھے مگر کامیاب افسانہ نگار ضرور تھے۔اس لیے فلموں کے سیٹھ، ڈائریکٹر اور اداکار منٹو کی عزت کرتے تھے۔ فل میکرز۔۔۔ ٹاپ کے اداکار اور اداکارائوں سے ان کے قریبی روابط تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ فلمی لوگوں بالخصوص اداکارائوں کے خاکے لکھتے ہیں تو فنِ تحریر کے صادقین لگتے ہیں۔گنجے فرشتے اور لائوڈ سپیکر چلتے پھرتی زندگی کے حقیقی کرداروں کی شخصیات کے وہ پہلو۔جو ان کے ساتھ چلنے پھرنے اور کام کرنے والوں کو بھی اکثر اوقات نظر نہیں آتے تھے۔مگر منٹو اپنے چابک دست قلم سے ان کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ جس کا خاکہ لکھا جاتا ہو گا وہ بھی سوچتا ہو گا کہ کیا میں ایسا ہی ہوں؟اشوک کمار سے پری چہرہ نسیم تک سب ہی ۔ منٹو کو فلمی عورتوں کی نفسیات سے گہری دلچسپی تھی۔جاننے اور سمجھنے کی یہ تانگ اور تجسس اس کی تحریروں میں جا بجا بکھرا ہوا ہے۔بھارتی اداکارہ نرگس کا خاکہ جیسا لکھا گیا،وہ صرف منٹو ہی دکھا سکتا ہے۔جب منٹو نواب چھتاری کے داماد کے ساتھ نرگس کے گھر جاتے ہیں۔"اندر تین چار بار کہلوانے کے بعد نرگس آئی۔سب نے اُٹھ کر تعظیماً اسے سلام کہا۔میں بیٹھا رہا۔نرگس کا داخل ہونا فلمی تھا۔ اس کا سلام کا جواب دینا فلمی تھا۔اس کا بیٹھنا اٹھنا فلمی تھا۔اس کی گفتگو فلمی تھی،جیسے سیٹ پر مکالمے بول رہی ہو"۔نرگس ہی کے ایک اور روپ کی منٹو ہلکی سی جھلک تب دکھلاتے ہیں جب نرگس کی ماں جدن بائی۔۔سٹار اشوک کمار کو ایک نئی فلم کے لیے بلاتی ہے۔یہاں ایک ایسی نرگس ہے جو اشوک پر ڈورے بھی ڈال رہی ہے اور اپنی وارفتگی چھپانا بھی چاہتی ہے۔پراسرار نینا،پری چہرہ نسیم بانو، نور جہاں سرور جہاں۔ یہ سب منٹو کے فلمی سفر کی یادیں ہیں مگر منٹو کی عینک کے Lenses سے۔منٹو گھریلو خواتین اور فلمی عورتوںکے مزاج اور کردار پر روایت سے ہٹ کر بات کرتا ہے۔اس کے مطابق جذبات کے اظہار اور اداکاری کے لیے ایکٹریس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے نشیب و فراز سے آگاہ ہو۔منٹو کے مطابق کوئی شریف عورت کیمرے کے سامنے اپنے فرضی عاشق کی جدائی کے اثرات اپنے چہرے پر پیدا نہیں کر سکتی۔جب تک اس نے زندگی کا یہ رنگ نہ دیکھا ہو،وہ کیفیت وہ خود پر کیسے طاری کر سکتی ہے؟ منٹو۔۔۔ہجرت کے واقعات سے متاثر ہو کر پاکستان چلا آیا یا بات کچھ اور تھی؟اشوک کمار اور ان کے بہنوئی کے سٹوڈیو فلمستان میں منٹو ایک مکالمہ نگار تھے۔منٹو کے مطابق، اشوک کمار اور مسٹر واچا (سائونڈ اسسٹنٹ) مجھ سے مشورے لیتے تھے۔ ایک شام۔ اشوک کمار،منٹوکو اس کے فلیٹ پہنچانے کے لیے مسلمانوں کے ایک محلہ سے گزرا۔ فسادیوں نے اشوک کی کار کو گھیرلیا۔منٹو خائف ہو گیا۔ ایک ہندو نوجوان آگے بڑھا اور کہنے لگا" اشوک بھائی آگے راستہ نہیں ملے گا۔۔باجو کی گلی سے نکل جائو"۔مگر اس واقعہ نے منٹو کا دل توڑ دیا۔ نذیر احمد اجمیری"مجبور"کے نام سے ایک فلم بنا رہے تھے۔منٹو نے اس کی کہانی بدلنا چاہی۔ اجمیری نے اشوک سے کہا آئندہ ڈسکشن میں منٹو کو نہ بٹھائیں۔ وہ متعصب ہے۔منٹو کہتے ہیں،میں نے بہت غور کیا،آخر میں میںنے خود سے کہا"منٹو بھائی ۔۔ آگے راستہ نہیں ملے گا۔کار روک لو۔ادھر باجو کی گلی سے نکل جائو میں چپ چاپ باجو کی گلی سے پاکستان چلا گیا"۔ مگر اوپندر ناتھ اشک اور عصمت چغتائی کے مطابق جب اشوک کمار نے عصمت کی کہانی "ضدی"اور کمال امروہی کی "محل" چن لی اور منٹو کی کہانی چھوڑ دی تو منٹو کو بڑی ذلت محسوس ہوئی اور وہ پاکستان چلا گیا۔