ہمارے ملک میں جس تیزی کے ساتھ عوام کے جان و مال کا تحفظ غیر یقینی ہوتا جا رہا ہے اُس سے عوام میں زبردست خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ جو حکومت عوام کو جانی اور مالی تحفظ نہیں دے سکتی اُسے حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا ۔عوام ریاست کو اپنے تحفظ کی خاطر اربوں روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں آج کے اِس دور میں ایک سفید پوش اور غر یب انسان کے لیے زندگی گزارنا ہمارے ملک میں بہت ہی مشکل ہو چکا ہے۔ جان لیوا مہنگائی کے ساتھ جینے کی ہر چیز پر ٹیکس عائد ہو چکا ہے۔ حکمران اپنی عیاشیوں اور اپنی پرتعیش زندگی کے لیے عوام کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ بر سر اقتدار لوگ ایک دوسرے کو زبردست تحفظ دے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں چیئرمین سینیٹ کی تاحیات جو مراعات کا بل پاس کیا گیا اُس سے غریب عوام چیخ اُٹھے سوشل میڈیا پر حکمرانوں کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن سب بے اثر بے انتہا مہنگائی نے سفید پوش طبقے کا خون نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف عوام کو اِس ملک میں کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہے نہ تو اُن کی جان محفوظ ہے اور نہ ہی مال محفوظ ہے جس ملک میں انصاف نہ ہو وہاں پر جرائم بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں انصاف نہ ہونے کے برابرہے بڑے سے بڑے قاتل اور ڈکیت بھی کچھ دن جیل میں رہ کر عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہے۔ جب سزا کا عمل ہی ختم ہو چکا ہے تو پھر ڈاکوئوں اور قاتلوں کے لیے کسی قسم کا خوف ہو گا۔ آج ہمارے ملک سے لوگ اغوا ہو کر قتل ہو رہے ہیں کچہ کا علاقہ سب کے لیے نو گو ایریا بنا ہوا ہے۔ گزشتہ 20 سال سے کچہ کے نام پر ہونے والے پولیس آپریشن پر اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں لیکن عوام کو کسی قسم کا تحفظ نہیں مل سکا۔ گزشتہ تین ماہ قبل اپریل میں پنجاب حکومت نے بڑے زور و شور سے کچہ کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا پہلے پہل تو یہ آپریشن بڑے جوش و خروش سے شروع کیا گیا جس میں پولیس کو کچھ کامیابیاں بھی ملی لیکن بعد میں یہ آپریشن آہستہ آہستہ سست روی کا شکار ہو تا گیا کروڑوں روپے کی رقم خرچ ہونے کے باوجود پولیس خطر ناک ڈاکووں کے حوصلے پست نہ کر سکی اِن تین ماہ کے دوران صرف سات ڈاکو گرفتار ہو سکے اور اتنی ہی تعداد میں ڈاکو مارے گئے جبکہ سندھ پولیس کی انتہائی ناقص کار کردگی کی وجہ سے پنجاب کی حدود میں مقیم ڈاکو سندھ کے جنگلات میں رو پوش ہو گئے جون کے پہلے ہفتے سے پنجاب پولیس کا آپریشن تقریباً ختم ہو گیا۔ دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہونے سے پولیس پیچھے ہٹ گئی اور کچہ کے ڈاکو پھر سے منظم ہو نا شروع ہو گئے جن علاقوں کا کنٹرول پولیس نے حاصل کر لیا تھا وہ پھر سے ڈاکوئوں کے پاس جانے لگے ابھی حالیہ دنوں ڈاکوں نے تین اغوا کاروں کا قتل کر دیا جبکہ پولیس کی گاڑی پر بھی حملہ کر کے تین اہلکاروں کو شدید زخمی کر دیا اور ایس ایچ او تھانہ کشمور کو اغوا کر کے لے گئے۔ کچہ کے ڈاکوں نے روالپنڈی کے ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور کو سستی گاڑی فروخت کرنے کے لالچ دے کر بلایا اور پھر اُسے اغوا کر لیا اور دو کروڑ تاوان ادا کرنے کا مطالبہ کیا اُس کی بہن ڈاکوں سے منتیں کرتی رہی کہ ہم غریب بچے ہیں خدارا اِس کو رہا کر دیا جائے لیکن ڈاکوئوں نے ایک بے بس اور غریب بہن کی فریاد نہ سنی اور اُس غریب ڈرائیور کو دو کروڑ تاوان نہ ملنے پر قتل کر دیا اسی طرح دو اور بے گناہ اغوا کار بھی ڈاکوئوں نے قتل کر دیئے یہ سلسلہ اب روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے۔ حکومت کی رٹ کچہ میں ناکام ہو چکی ہے اب اگرپولیس کچہ آپریشن میں ناکام ہو چکی ہے تو یہ ٹاسک فوج کو دیا جائے اور ڈاکوئوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے بھرپور آپریشن کیا جائے کیونکہ آج اگر ڈاکوئوں کے حوصلے پھر بلند ہو رہے ہیں تو یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ حکومت اب نئے سرے سے ایک بہترین حکمت عملی اختیار کر کے سندھ اور پنجاب میں ڈاکوئوں کا صفایا کرنے کے لیے آپریشن کرئے وگرنہ یہ آگ آگے تک پھیل سکتی ہے ڈاکوئوں کے پاس جدید اسلحہ ہے جبکہ مقامی سرداروں کی بھی اس کو پشت پناہی حاصل ہے اگر مقامی بلوچ سردار اِن ڈاکووں کے خلاف ہو جائیں اور اپنے قبائل کے ذریعے اِن کا صفایا کرنا چاہیں تو اِن بلوچ سرداروں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ ڈاکوئوں کی اکثریت مقامی بلوچوں کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتی ہے اس لیے لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ حکومت مقامی بلوچ سرداروںکو بلا کر اُن کو اعتماد میں لے کر بھی اِن ڈاکوئوں کے خلاف موثر کاروائی کر سکتی ہے وگرنہ یہ جو بے گناہ لوگ ڈاکوئوں کے ہاتھوںسے قتل ہو رہے ہیں یہ سب حکومت کے کھاتے میںلکھا جا رہا ہے۔ ہمارے حکمران ان بے گناہ افراد کے مارے جانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہونگے اگر فاروق اعظم ؓ جیسا جلیل القدر صحابی اور حضور اقدس ﷺ کے قرب میں رہنے والا اپنے دور خلافت میں یہ کہتا ہے کہ اگر عمر بن خطا ب ؓ کے دور حکومت میں دریائے نیل کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر جائے تو روز محشر اللہ تعالیٰ اِس بارے میں بھی حضرت عمر ؓسے پوچھے گا یہاں تو روزانہ درجنوں لوگ بھوک ، غربت ، بے روزگاری اور ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل ہو کر مر رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کو پروا تک بھی نہیں ہوتی جبکہ اِس کے علاوہ زنا ، شراب ، سود اور دیگر برائیاں بھی اِس وقت عروج پرہیں کیونکہ اِس ملک میں عدل و انصاف نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ اس لیے جرائم پیشہ لوگ بے دریغ ہر قسم کی برائیاں کر رہے ہیں اگر ہماری عدالتوں میں شریعت کے مطابق سزائیں دی جاتی اور عوام کو مکمل انصاف دیا جاتا تو آج نہ تو کچہ میں ڈاکوہوتے اور نہ ہی مختلف شہروں میں سر عام برائی کے اڈوں پر زنا ہوتااورنہ دیگر برائیاں ہو سکتی تھیں ۔