ملا محمد عمرؒ کے طالبان کا افغانستان ایسا تھا جس کا امریکیوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا… ایک پُرامن ملک جو ہر طرح کی سرمایہ کاری کیلئے موزوں تھا۔ سوویت یونین کے بعد امریکی اپنی عمومی بے رحم حکمتِ عملی کے تحت اس خطے کو بھی فساد اور لڑائی میں مبتلا رکھنا چاہتے تھے، تاکہ یہاں پر موجود لیتھیم اور دیگر قیمتی دھاتوں کو سستے داموں ان وار لارڈز سے خریدا جا سکے جو مختلف علاقوں پر قابض ہوں اور انہیں اپنی لڑائی کیلئے اسلحے کی ضرورت پڑے تو وہ امریکیوں کے ہاتھوں یہ معدنیات بیچ کر اسلحہ خریدیں۔ سنٹرل ایشیا کے ممالک میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر خصوصاً ’’تاپی‘‘ (Tapi) کے بارے میں ان کی دُور رس حکمتِ عملی تھی کہ جب کبھی نصف صدی بعد دنیا میں تیل اور گیس کی کمی ہونے لگے گی تو افغانستان کے ذریعے پائپ لائن لے جائی جا سکتی ہے۔ لیکن یہاں تو ہفتوں میں نہیں بلکہ دنوں میں طالبان نے افغانستان کو خطے کے سب سے پُرامن ملک میں بدل دیا تو امریکیوں کے پسینے چھوٹ گئے۔ امریکہ کی ’’غیر خفیہ کی گئی ‘‘ (Declassified) دستاویزات بتاتی ہیں کہ طالبان کے قندھار میں آنے کے تین ماہ بعد ہی ان سے تعلقات بنا کر آگے بڑھنے کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ لیکن طالبان ان کیلئے ’’لوہے کے چنے‘‘ ثابت ہوئے۔ افغانستان میں عالمی طاقتوں کی ساری محنت اکارت جا چکی تھی اور ان کے برعکس ایک ایسی اسلامی ریاست وجود میں آ چکی تھی جہاں امن و امان اور انصاف بھی تھا اور خوشحالی بھی۔ کابل پر قبضے کے بعد وہ عالمی سطح پر ایک مسلمہ حکومت تو تھے ہی، مگر عالمی برادری کی ہٹ دھرمی انہیں تسلیم نہیں کرتی تھی، لیکن ضرورت کیلئے ان سے مذاکرات کر کے افغانستان کے وسائل سے مالا مال بھی ہونا چاہتی تھی۔ طالبان سے پہلے ہی، ترکمانستان کی ’’تاپی‘‘ گیس فیلڈ کے یاشلر (Yashlar) بلاک کا معاہدہ ترکمانستان کے صدر نیازوف نے جنوری 1992ء میں ارجنٹائن کی فرم براڈز (Birads) سے کر لیا تھا۔ لیکن اس نے ساتھ ہی امریکہ کے سابقہ سکیورٹی ایڈوائز الیگزینڈر ہیگ کو ایڈوائزر لگایا تاکہ امریکی سرمایہ کاری بھی آئے۔ یہ پائپ لائن ایران کے راستے گزرنا تھی اور امریکہ ایران خفیہ مذاکرات بھی کامیاب ہو چکے تھے۔ اس منصوبہ بندی کے برعکس ستمبر 1994ء میں طالبان نے قندھار فتح کر لیا اور پائپ لائن کا پُر امن راستہ بھی نظر آ گیا۔ فوراً مارچ 1995ء میں نیازوف اور بے نظیر بھٹو نے افغانستان کے راستے پائپ لائن بچھانے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔ یہ وہ معاہدہ تھا، جس نے ایران اور امریکہ کو بیک وقت طالبان کا مخالف بنا دیا اور دونوں نے بھارت سے مل کر طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کی خفیہ مدد شروع کر دی۔ لیکن اسکے باوجود امریکہ طالبان کے ذریعے اس پائپ لائن پر کام کرنے کا آرزو مند تھا۔ اس سلسلے میں اگست 1995ء میں رابن رافیل پہلی دفعہ ملا محمد عمرؒ سے ملی، سر ڈھکا ہوا، لباس موزوں، نظریں نیچی۔ اس نے طالبان سے تعلقات کیلئے 28 امریکی مطالبات رکھ دیئے جن میں جمہوری الیکشن اور خواتین کی آزادی وغیرہ شامل تھے۔ ملا محمد عمرؒ نے ایک نگاہِ غلط اس کاغذ پر ڈالی اور اسے ایک آزاد حکومت کے آزاد سربراہ کی حیثیت سے دروازے کا راستہ دکھا دیا۔ امریکہ نے ترکمانستان کے صدر پر دبائو ڈالا اور اس نے امریکی گیس / تیل کمپنی یونی کول ڈیلٹا (Unicol Delta) سے دسمبر 1995ء میں معاہدہ کر لیا اور ارجنٹائن کی کمپنی پر پابندی لگا دی۔ رابن رافیل کو امریکی کاروباری مفادات کے کرتا دھرتائوں نے یونی کول کیلئے پھر بھیجا۔ اس دفعہ وہ بہت مؤدب تھی، ہاتھ باندھے دیر تک کھڑی رہی۔ اٹھائیس مطالبات کا کاغذ کہیں پھاڑ کر پھینکا جا چکا تھا اور ایک ہی التجا تھی کہ آپ ایک آزاد ریاست کے آزاد سربراہ ہیں، یونی کول کو ’’تاپی‘‘ سے گیس اور تیل براستہ افغانستان لے جانے دیں۔ ملا محمد عمرؒ نے جواب دیا، آپ نے بہت دیر کر دی محترمہ، ہم ارجنٹائن کی کمپنی ’’براڈز‘‘ سے معاہدہ کر چکے ہیں اور اس میں پاکستان، ترکمانستان اور ازبکستان بھی شامل ہیں اور ہم عہد سے نہیں پھرتے۔ پاکستان کا نام سنتے ہی امریکیوں کو آگ لگ گئی۔ امریکی سفیر ٹام سائمنز (Tom Simons) مئی 1996ء میں بے نظیر سے ملا اور اسے کہا کہ پاکستان یونی کول کو اس پائپ لائن کے بلا شرکت غیرے تمام حقوق دے۔ بے نظیر ناراض ہو گئی اور اس نے فوراً امریکی سفیر سے اس جسارت پر معافی کا مطالبہ کر دیا۔ یہ معافی بے نظیر کو بہت مہنگی پڑی اور اسٹیبلشمنٹ نے 5 نومبر 1996ء کو بذریعہ فاروق لغاری اقتدار میں کبھی نہ واپس آنے کیلئے، اسے حکومت سے نکال کر اپنے دوسرے ’’وفادار‘‘ نواز شریف کو دو تہائی اکثریت سے اقتدار سونپ دیا۔ اس گیس پائپ لائن کے منصوبے میں پہلی دفعہ روس کا اثر و رسوخ استعمال ہوا تھا اور روسی کمپنی گوزپروم (Gazprom) بھی معاہدے میں شامل کر لی گئی تھی۔ اب رابن رافیل کا ’’مصالحاتی چہرہ‘‘ منظر سے ہٹا دیا گیا اور امریکہ کا ظالم اور خوفناک چہرہ گیارہ ستمبر 2001ء کے دن رونما ہوا۔ افغانستان بیس سال طاقت کے استعمال کے بعد امریکہ کو طالبان کو بظاہر پھر وہی الفاظ کہنے پڑے کہ آپ ہی آزاد ریاست کے آزاد شہری اور آزاد حکمران ہو، مگر امریکیوں کے دل میں خواہشات مچل رہی تھیں کہ طالبان کے افغانستان میں بدامنی رہے، پاکستان محتاج اور پسماندہ رہے تاکہ خطے میں روس اور چین کا اثر و رسوخ نہ بڑھے۔ عمران خان کا چینی صدر ژی سے ملنا اور پھر اسکی ہدایت پر فوراً روسی صدر پیوٹن سے ساڑھے تین گھنٹے کی ملاقات بالکل اسی ماحول کو واپس لے آئی تھی جس ماحول میں بے نظیر نے امریکی سفیر سے معافی طلب کی تھی۔ امریکہ کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر ’’پرانے گھوڑے‘‘ اور دو تہائی اکثریت والے نواز شریف کو آگے لانے کیلئے کہا گیا۔ سر تا پا خدمت گار اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پوری توانائیاں اس پر صرف کر دیں۔ امریکی اور یورپی سفراء مریم نواز سمیت لاتعداد سیاسی لیڈروں سے ملے، اسٹیبلشمنٹ نے اپنا اثر و رسوخ بھی خوب استعمال کیا۔ ’’ووٹوں‘‘ اور ’’لوٹوں‘‘ کی خرید و فروخت بالکل یوکرین کے روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ (Yanukovych) کی عدم اعتماد کی تحریک کی طرح تھی۔ یانوکووچ کے بعد تو یوکرین خاموش ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے روس کو کریمیا پر حملہ کر کے اپنا مفاد بچانا پڑ گیا تھا۔ لیکن اس کے بالکل برعکس دس اپریل کو جس طرح پاکستانی عوام عمران خان کے حق میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے سڑکوں پر نکلے اس نے امریکہ سمیت تمام منصوبہ سازوں کو حیران کر دیا۔ مسلسل احتجاج کے دوران پندرہ مئی والے دن، جیسے نازک اندام نوجوانوں لڑکوں اور لڑکیوں نے ’’برگر’’ کے طعنے کو دھویا، اس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ آخری کیل ان ضمنی الیکشنوں نے ٹھونک دی، جس میں اسٹیبلشمنٹ اپنی پوری قوت اور پنجاب کی حکومت کے اثر و رسوخ کے باوجود پندرہ سیٹوں پر بری طرح شکست کھا گئی۔ یہی دن تھے جب امریکی صدر جوبائیڈن اور دیگر امریکی اہلکاروں کے افریقہ،مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کے دورے ناکام ہو رہے تھے، یورپ نے بھی یوکرین والی جنگ میں بزدلی کا ہی مظاہرہ کیا تھا۔ ممکنہ تیسری عالمی جنگ اور چین کو روکنے کا خواب ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ چکا تھا۔ عالمی جائزوں کے مطابق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اب اتنی طاقتور نہیں رہی کہ امریکہ کی مدد کر سکے۔ عمران خان کے خلاف اس کا ہر قدم نہ صرف رائے عامہ کو اس کے خلاف کرتا ہے بلکہ امریکہ سے بھی نفرت میں اضافہ کرتا ہے۔ افغانستان میں ذلّت آمیز شکست اور ایران کے امام خمینی والے تجربے نے امریکیوں کو بہت کچھ سکھا دیا ہے کہ ایسی اسٹیبلشمنٹ جس کی عوام میں جڑیں ختم ہو جائیں، عزت و توقیر باقی نہ رہے اور عوام بھی اس کیفیت کو بخوبی سمجھنے لگ جائیں تو پھر وہ کسی کام کی نہیں رہتی۔ امریکہ نے اپنے ’’ٹوڈی‘‘، چلّی کے جرنیل ڈکٹیٹر نپوشے کو خود جمہوری حکومت کے حوالے کر دیا تھا کہ لو اب یہ ہمارے کام کا نہیں رہا، چلائو اس پر مقدمے، ہم بھی تماشہ دیکھیں گے۔ اب تو ہم اس سے دوستی رکھیں گے جس کی عوام میں جڑیں ہوں۔ رابن رافیل کا مشن اسی دوستی کے سفر کی پہلی سیڑھی ہے۔ معلوم نہیں عمران خان نے اس کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے کا آغاز کر دیا ہے یا نہیں۔ لیکن رابن رافیل کی پاکستان میں موجودگی بتا رہی ہے کہ اگلے چند ہفتے بہت اہم ہیں۔ (ختم شد)