محمد علی ایک سرکاری سکول میں پہلی کلاس کا طالب علم ہیَ وہ غریب والدین کا بیٹا ہے جس کو پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ عمران خان کے حق میں احتجاج شروع ہوا حالات خراب ہونا شروع ہوئے َ اس کا سکول بند ہوگیا جس پر محمد علی نے اپنی ماں کے سامنے احتجاج کیا اور کہا" ہن اے عمران خان" پھڑی گیا اے ساڈے ماسٹر عمران کھان دے نال نے اوناں سکول بند کر دیتا اے ‘‘جلاؤ گھیراؤ کی خبریں اس نے ہمسائے کے گھر ٹی وی پر دیکھ لیں تو رونے لگا کہ میرے سکول کو بھی آگ لگادی ہے اب کہاں پڑھوں گا۔ یہ وہ ہے یقینی جو بچوں کی نفسیات کا حصہ بن رہی ہے محمد علی اور اس جیسے لاکھوں غریب بچے جن کی زندگیوں تک اس عدم مساوات پر مبنی نظام جمہوریت کے ثمرات، کسی آسودگی بھری زندگی کی صورت میں تو نہیں پہنچتے لیکن اس نظام میں موجود ہر قسم کی بدصورتی کے اثرات ان کی زندگیوں کو مزید تکلیف سے دوچار کر دیتے ہیں۔ہم اپنے بچوں کیا دے رہے ہیں ؟ حالات کی بے یقینی ، سیاسی عدم استحکام اور دگر گوں معیشت۔خوفناک مہنگائی مستقبل کے حوالے سے اندیشے ہی اندیشے ،خدشات ہی خدشات۔وہ زمانے گئے جب بچے ایسی سیاسی صورتحال سے نابلد رہتے تھے۔آج کے بچے سیاست اور معیشت کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ وہ اپنی معصومانہ سمجھ کے مطابق حالات پر جو تبصرہ کرتے ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور ہائی لیول کی سیاسی کشیدگی کی وجہ سے چھ دن انٹرنیٹ بند رکھا گیا۔ کاروبار، تعلیم ،سماجی معاملات سبھی اس بندش سے جہاں تلپٹ ہوئے وہاں تین سال کے بچے بھی انٹر نیٹ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی پسند کے کارٹون دیکھنے سے محروم رہے اور اس صورتحال پر ان کا ردعمل بھی اپنے ملک کی بگڑی ہوئی صورتحال پر دلچسپ تبصرہ تھے۔ انٹرنیٹ بندش کا فیصلہ جس تناظر میں کیا گیا معلوم نہیں کہ حکومت اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ اٹھا بھی سکی یا نہیں کیونکہ جس پیمانے پر تباہی مچائی گئی اس میں کسر تو کوئی نہیں چھوڑی۔ چھے دن انٹرنیٹ بند ہونے سے انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ان گنت روزگار کے ذرائع کو نقصان پہنچا ہے ۔ ایک دن میں پاکستان کو 50 سے 60 لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچا۔ ایک اندازے کے مطابق چھے دنوں میں انٹرنیٹ بند ہونے سے پاکستان کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ پاکستان میں کرونا کے بعد بہت سے روزگار انٹرنیٹ پر انحصار کرنے لگے ہیں اور اب دنیا بھر میں معاشی معاملات یا کاروبار انٹر نیٹ سے جڑچکے ہیں ۔ پاکستان میں ایک لاکھ تیس ہزار بائیکیا چلانے والے رائڈرز ان چھ دنوں میں اپنی روزی کمانے سے محروم رہے۔ اسی طرح تیس ہزار وہ افراد ہیں جو مختلف کمپنیوں اوبر ،کریم اور ان ڈرائیو کی رینٹ اے کار چلاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی لائف لائن سے جڑے ہوئے اسمارٹ فون کے ذریعے ہی ان کی بکنگ ہوتی ہے۔ فوڈ پانڈاکے 12 ہزار شیفس تک لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے رسائی حاصل کرتے ہیں تو ان کاروبار چلتا ہے۔ پھر اس کے بعد رائڈرز گھروں تک ڈیلیوری پہنچانے کے لیے بھی انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ چھ ہزار ای کامرس سٹوروں کا کاروبار پانچ دن مکمل طور پر بند رہا ۔یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ ہمارے بہت سے طالب علم انٹرنیٹ پر دیہاڑی لگا کر اپنے پڑھائی کے اخراجات نکال کر رہے ہیں ۔اس لیے انٹرنیٹ بند ہونے سے جتنا نقصان اور جس سطح پر لوگوں کو نقصان پہنچا ہے اس کا تخمینہ لگانا آسان نہیں ہے۔ماضی میں بھی حالات خراب ہونے کے خدشات کے پیش نظر انٹر نیٹ اور فون سروس بند ہوتی رہی ہے لیکن اس وقت حالات مختلف تھے۔ اب لاکھوں لوگوں کا کاروبار انٹرنیٹ پر منحصر ہے۔ چھ دن مسلسل انٹرنیٹ بند رہنے سے پاکستان میں فری لانسنگ میں کام کرنے والے افراد کی انٹرنیشنل پلیٹ فارم پر کریڈیبلٹی متاثر ہوئی ہے یہاں تک کہ فری لانسنگ کے مختلف پلیٹ فارم فائیور اوراپ ورک پر پاکستان کو ڈی سیٹ کردیا گیا یعنی پاکستان کو ان ملکوں میں شامل کر دیا گیا ہے جہاں کے فری لانسر اویلیبل نہیں ہوتے۔ڈیجیٹل کامرس کی انٹرنیشنل منڈی میں پاکستان کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا ہے۔سوال یہ ہے کہ سیاسی کشیدگی تو ابھی کسی طور کم ہونے میں نہیں آرہی۔تحریک انصاف کے ساتھ باقی تمام سیاسی جماعتیں سینگ پھنسائے ہوئے ہیں ۔ایک طرف عدلیہ فریق ہے اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہے۔ لیکن حالات کی حساسیت اور سنگینی کو کوئی بھی سمجھنے کو تیار نہیں۔ اگر ایک سیاسی جماعت پر تشدد احتجاج اور مظاہروں کے ساتھ اپنی طاقت کا اظہار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے ردعمل میں اس کی حریف سیاسی جماعتیں بھی اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے میدان میں آ جاتی ہیں۔کوئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کر رہا ہے کوئی عدلیہ کے سامنے احتجاج کناں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اب یہ سلسلہ کہاں جاکے رکے گا ۔سیاسی حالات کی کشیدگی کسی طور کم ہونے میں نہیں آرہی۔ اس سیاسی جنگ میں صرف سیاسی جماعتیں ہی آپس میں صف آرا نہیں ہیں بلکہ خطرناک بات یہ کہ ادارے آمنے سامنے کھل کر کھڑے ہیں۔ اعلی عدلیہ کے فیصلوں کو پہلے کبھی اس سطح پر سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اداروں سے منسلک جو احترام وقار ہوا کرتا تھا اب اسے نقصان پہنچ رہا ہے۔ریاست کے مفاد میں یہ بات اچھی نہیں ہے۔لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اداروں کو اپنے وقار کے ساتھ قائم رہنا ہے۔ اس بات کا احساس ان اداروں میں بیٹھے ہوئے اہل اختیار کو ہونا چاہیے۔ یہ پاکستان کی عوام اور پاکستان کی ریاست کا معاملہ ہے۔یہ صرف چند سیاسی جماعتوں سیاسی مفادات اور اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد کی سیاسی وابستگیوں کا معاملہ نہیں ہے۔ سیاسی حالات کی اس سنگینی پر اپنے کہے ہوئے دو شعر؛ بے چہرہ لوگ ہیں کہیں بے عکس آئینے گلیوں میں رقص کرتی ہوئی بد دعا تو ہے ! کاغذ کی ناؤ بپھرے ہوئے پانیوں کے بیچ اس پہ یہ رخ ہوا کا اسے بھی پتا تو ہے !!