اس وقت پاکستان میں ’’ٹاواں ٹاواں‘‘جمہوری نظام ہے، جسے آپ نیم جمہوری سسٹم بھی کہہ سکتے ہیں، بلکہ ایک دوست وکیل کے بقول آج کل نا تو مارشل لاء ہے اور نا جمہوریت۔ بلکہ یہ نظام ’’پارشل لائ‘‘ کہلاتا ہے۔ یعنی جس کا دل کرے اس نظام میں اپنی پسند کا قانونی حصہ لے اور جیسے چاہے اُس میں ردو بدل کر دے۔ اس کی مثال حال ہی میں ہونے والے کراچی کے میئر کے انتخاب سے بھی لی جا سکتی ہے کہ گزشتہ روز پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے میئر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی اور ڈرامائی انداز میں مرتضیٰ وہاب (جو کہ یوسی چیئرمین بھی نہیں ہیں) 173 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جب کہ جماعت اسلامی کے امیدوار نعیم الرحمٰن 160 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔حالانکہ اگر ہم نمبرز گیم کی بات کریں تو سٹی کونسل میں پیپلز پارٹی کے 155 اور جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 130 ہے جبکہ پی ٹی آئی 62، مسلم لیگ (ن) 14، جے یو آئی 4 اور تحریک لبیک کی ایک نشست ہے۔میئر کے انتخاب کے لیے پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی۔ایف) جبکہ جماعت اسلامی کو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔اس طرح پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی ارکان کی تعداد 173 ہے جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مشترکہ اراکین 192 ہیں۔تاہم میئر کے انتخاب سے قبل اس وقت ڈرامائی صورتحال دیکھنے میں آئی جب پی ٹی آئی کے 30 منحرف یو سی چیئرمینوں کے گروپ نے اسد امان کو اپنا پارلیمانی لیڈر نامزد کردیااور عین انتخاب کے دن مذکورہ 30اراکین یا تو غائب ہوگئے یا غائب کر دیے گئے۔ اکثریت کے باوجود جماعت اسلامی اپنا میئر منتخب کروانے میں یکسر ناکام ہوگئی۔ مطلب! اگر آپ اکثریت میں ہیں تو پاکستان میں آپ کی کوئی اہمیت نہیں، یہاں کبھی بھی ، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ آگے چلنے سے پہلے اگر کراچی میں میئر شپ کے حوالے سے بات کریں تو کراچی کی بلدیاتی تاریخ مثالی رہی ہے۔یہاں جمشید نسروانجی اور عبدالستار افغانی جیسے لوگ بھی میئر رہے ہیںجنہوں نے کراچی کی خوبصورتی کو نمایاں کیا، جبکہ وسیم اختر جیسے میئر بھی گزرے ہیں،جن کے دور میں کراچی کی خوبصورتی ماند پڑ گئی۔درحقیقت شہرقائد میں بلدیاتی حکومت کا آغاز 1933 سے ہوا، جمشید نسروانجی کراچی کے پہلے میئرمنتخب ہوئے جو آج بھی جدید کراچی کے بانی کہلاتے ہیں۔1956تک اس شہر کے 20 میئرمنتخب ہوئے، اس کے بعد یہ سلسلہ رک گیا، 1979میں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی سے دوبارہ بلدیاتی نظام شروع ہوا۔ مرحوم عبدالستار افغانی دو بار میئر منتخب ہوئے۔ پھر1988ء میں ایم کیوایم کے اٹھائیس سالہ ڈاکٹر فاروق ستار کو کراچی کے کم عمر ترین میئرہونے کا اعزاز حاصل ہوا، 1992ء میں انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ نوسال بعد مشرف حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 14اگست 2001کو نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا، جس کے تحت جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے پہلے ناظم اور23ویں مئیر کا حلف اٹھایا۔پھر اسی نظام کے تحت 2005کے دوسرے انتخابات میں مصطفی کمال نے ناظم اعلیٰ کی سیٹ سنبھالی۔ پھر 2015میں وسیم اختر میئر کراچی منتخب ہوئے اور 30 اگست دوہزار بیس کو ان کی مدت ختم ہوئی۔اور اس کے بعد آج پیپلزپارٹی نے پہلی مرتبہ کراچی کی میئر شپ حاصل کی۔ کیسے حاصل کی؟ یہ سبھی کو علم ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا یہی مقدر رہ گیا ہے؟ کیایہی پاکستانی سیاست ہے؟ جس کے لیے عمران خان کو آئوٹ کیا جا رہا ہے؟ یقینا یہ وہی سکول آف تھاٹ ہے جس کے لیے عمران خان کھڑا تھا۔ اور پھر پیپلز پارٹی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اُنہیں ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ وڈیرہ سسٹم چاہیے۔ وہ وڈیرہ سسٹم جس کے آگے عوام ایک بھکاری بن کر رہیں، ہاتھ جوڑے کھڑے رہیں، وہ جب چاہیں اُسی وقت سجدہ ریز ہوں۔ ایسی صورت میں پیپلزپارٹی کیسے چاہے گی کہ جمہوریت بحال ہو اور عوام کو حکمرانی ملے۔ فی الوقت تو یہی لگ رہا ہے کہ جس نے وڈیرے کے خلاف آواز اُٹھائی، وہ گیا۔ لہٰذابادی النظر میں اگر یہی پاکستان بننا ہے، تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ تبھی اتنی زیادہ تعداد میں پاکستانی ملک چھوڑ رہے ہیں کہ فی امان اللہ ! ہمارے ملکی حالات دیکھ کر یقین کریں درجنوں ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ملک کی امیگریشن کھول دی ہیں کہ آپ چند کروڑ روپے دے کر وہاں پر مستقل رہائش رکھ سکتے ہیں، اس میں امریکا، کینیڈا اور ترکی سرفہرست ہیں۔ ان میں سے 15ممالک ایسے ہیں جو 3سے 10کروڑ تک اپنی نیشنلٹی بیچ رہے ہیں۔ یعنی اگر معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے تو پھراُس پر اُٹھائی جانے والی دیوار چاہے سات ستاروں کے جھرمٹ تک جائے، ٹیڑھی ہی رہے گی۔ دیوار خود بخود ٹیڑھی نہیں ہوتی، معمار غلطی کرتا ہے تو دیوار میں ٹیڑھ کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔سوال پھر وہی ہے کہ کوئی پاکستان چھوڑ کر کیوں نہ جائے؟ کیا یہاں اُن کا کوئی Survivalہے؟ اُنہیں علم ہے کہ یہ ملک دوخاندانی سیاسی پارٹیوں کا ہے، جس سے باہر نکلا ہی نہیں جا سکتا ، بلکہ اُنہیں شاید علم ہوچکا ہے کہ یہیں رہ کر ان سیاستدانوں کی غلامی کرنا پڑے گی۔ لہٰذاوہ غلامی کو گلے لگانے سے بہتر یہی سمجھتے ہیں کہ ملک چھوڑ جائیں۔ معذرت کے ساتھ یہی حال ہم نے شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ کیا تھا کہ اکثریت کے باوجود اُنہیں اقتدار نہ دیا گیا۔ سبھی کے ساتھ ایسا ہوتا آیا ہے، اگر یہی حال رہا تو پھر کوئی بھی جمہوریت ایسے نہیں چلے گی۔ جب بھی کسی کے ووٹ زیادہ ہوں گے تو اُس کے ووٹوں کو روند دیاجائے گا۔ لہٰذاپھر یہ ایک جمہوری ملک کیسے ہوگیا؟ اسے کون جمہوری ملک کہتا ہے جس میں کمزور الیکشن کمیشن اور کمزور عدلیہ ہو۔ یہ وہی عدلیہ، وہی ملک اور وہی سیاستدان ہیں جہاں رات کو چیف جسٹس نے شراب کی بوتل پکڑی تھی جو صبح تک شہد میں تبدیل ہو گئی تھی، تو مجھے کوئی سمجھائے کہ ایسی صورت میں کیسے آپ کسی انصاف کی اُمید کرتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ اگرآپ نواز شریف کے بعد مریم کے ساتھ ہیں، شہباز شریف کے بعد حمزہ شہباز کے ساتھ ہیں، یا آصف زرداری کے بعد بلاول کے ساتھ ہیں تو آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا، لیکن اگر آپ جمہوری سوچ لے کر سیاست کریں گے، جمہوریت کا درس دیں گے، انقلابی سوچ لے کر جائیں گے تو آپ کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ آپ پر جھوٹے مقدمات درج کر لیے جائیں گے، یا آپ کی فیملی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ تو ایسے میں مجبورا آپ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ لہٰذاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے لیے ہم نے ملک آزاد کروایا تھا؟ اور پھر میرے خیال میں اگر آج برٹش راج ہوتا تو آج کے سسٹم اور برٹش راج میں فرق کیا تھا؟ بلکہ برٹش راج میرے خیال میں بہتر تھا۔ لہٰذاسمجھ سے باہر ہے کہ اگر یہی کچھ ہونا تھا تو ہم نے کیوں لاکھوں لوگوں کی قربانیاں دیں؟ کیا اس لیے قربانیاں دیں کہ ہم نواز شریف اور زرداری کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجائیں؟ یا اُن کی پیروی کریں؟