نگران حکومت کے لیے۔۔کئی چاند تھے سرِآسماں ۔۔۔مگر وہ بیچارے چمکے بغیر ہی پلٹ گئے۔اتنی کاکڑ صاحب کے وزیر اعظم بننے پر حیرت نہیں جتنی اس خیال پر کہ ڈار ڈالرکو نگران وزیر اعظم بنا دیں۔اے آلِ شریف،خُدا کا خوف کرو۔آپ کے تکبر کا تو یہ عالم ہے کہ جب مفتاح کو فارغ کر کے سمدھی ڈار ڈالر کو لا رہے تھے تو تم نے مفتاح کو یہ بتانے کی زحمت بھی نہیں کی کہ"تمہیں کیوں نکالا"؟ان کا یہ حال ہے،مجھے لگے تو تھپڑ۔۔۔تمہیں لگے تو پھول ورنہ سب کچھ ہے ان کے قدموں کی دھول۔چھوٹے میاں کا یہ سانحہ تا عمر رہا ہے کہ وہ اپنے بھائی جان کے شیڈ سے کبھی باہر نہ آ سکے۔تجھے پیار کرتے کرتے میری عمر بیت جائے۔اور بڑے میاں صاحب۔۔دائیں طرف جدید دور کی سیاسی شہزادی جسے چھوٹی باجی چٹیں لکھ لکھ کر بھیجتی ہے۔پھر آنکھ کا اشارہ ہوتا ہے،پھر کارکن نعرہ لگاتا ہے۔۔"ووٹ کو عزت دو"۔بڑے میاں صاحب کے بائیں جانب ڈار ڈالر ہوتے ہیں اور کہیں آس پاس حسن نواز اور حسین نواز بھی۔جب عمران خان،جنرل فیض اور ہمنوا اپنے ہی ادارے کے اندر کسی کو کارنر کرنے کی انتہائی کوشش کر رہے تھے تو میاں صاحب نے لندن سے براہِ راست گوجرانوالہ میں ایک خطاب فرمایا تھا۔اس وقت بڑے میاں صاحب اور مریم بی بی ایک بیانیہ بنا رہے تھے۔مرکزی خیال تھا ووٹ کو عزت دو۔سوال آج بھی موجود ہے ،ووٹ کی عزت کون پامال کر تا ہے؟عمران اپنے اور بشریٰ بی بی کے فیصلوں کے بوجھ تلے دب گئے۔وقت بدل گیا۔ووٹ کو عزت دلاتے دلاتے۔ چھوٹے میاں صاحب وزیرِ اعظم ہائوس میں آ گئے۔تب سے اب تک ووٹ کو کتنی عزت ملی؟ شہباز شریف سے آصف زرداری تک اور میاں نواز شریف سے مولانا تک۔۔یہاں تک کہ عمران خان نے خود۔۔ووٹ کی کبھی عزت نہ کی۔میاں نواز شریف تین دفعہ مدت پوری کیے بغیر پاور سے باہر آ گئے۔شہباز شریف اور آصف زرداری ہمیشہ کے لیے سمجھتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دی جا سکتی ہے مگر عزت والوں سے پوچھ کر۔عمران کی کیا بات کریں جاناں۔وہ تو صرف یہ جانتا تھا کہ اس ریاست کے حکماء اگر اسے چاہیں تو وہ عظیم ہیں ورنہ میر جعفر اور میر صادق۔وہ اپنی محبت میں گرفتار نرگسیت کا مارا ایک مقبول سیاستدان تھا۔آصف زرداری ہمیشہ سیاست کو شطرنج کی بساط سمجھتے ہیں۔اپنے مہرے سہولت کے مطابق آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں۔بڑے میاں دوستوںاور دشمنوں کو یاد رکھتے ہیں مگر جونہی پاور ہائوس میں آتے ہیں مقبولیت کے خُمار میں لانے والوں سے الجھ بیٹھتے ہیں۔جب ہوش آتی ہے تو پاور ہائوس سے باہر کھڑ ے ہوتے ہیں اور اونچی آواز میں پروین شاکر کی کتاب خود کلامی کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں۔اس دوران آواز اونچی ہو جائے تو خود کلامی سے آواز آتی ہے"مجھے کیوں نکالا"۔وزیرِ اعظم ہائوس پہنچنے سے پہلے چھوٹے میاں صاحب بہت پریشان اور بے اعتماد نظر آتے تھے۔پارٹی کے اندر شدید مخالفت تھی۔پارٹی کے باہر عمران رات کو خواب میں بھوت بن کر ستاتا تھا۔پھر چھوٹے میاں صاحب کی دعائیں رنگ لائیں اور عمران کی حماقتیں،مزید حماقتوں میں بدلتی چلی گئیں۔جب عمران کو نکالا تولوگ اس کی حکومت سے بڑے تنگ تھے،وہ غیر مقبول تھا۔مگر جب شریف اور زرداری آئے تو لوگ آگ بگولا ہو گئے،کیوں؟لوگ انہیں ان کے ماضی کے حوالے سے جانتے تھے۔ان کی ضد میں عمران غلط ہونے کے باوجود پاپولر ہو گیا۔ پھرPDMسارا عرصہ مہنگائی کرتی رہی اور عوام کی گالیاں سنتی رہی۔نالائق حکومت تھی۔۔نہ بیانیہ بنانا آیا۔۔۔نہ مؤثر میڈیا مینجر میسر آئے۔شہباز چو مکھی لڑائی لڑ رہے تھے۔IMFسے مذاکرات کہ کہیں ملک دیوالیہ نہ ہو جائے۔عدلیہ سے حکومت کی لڑائی کہ عدلیہ جانبدار لگ رہی تھی۔اصل حکمرانوں کی پسِ پردہ ڈکٹیشن۔بڑے میاں صاحب،مریم اور ڈار کا دبائو۔اتحادیوں کی نت نئی فرمائشیں اور نیب کے مقدمات بھی۔سوال اٹھتا تھا کہ اب اس قدر جھمیلے میں الیکشن کیونکر کروایا جائے۔ زور سارا اس بات پر تھا کہ نیا نگران وزیرِ اعظم ہمارا ہو۔یہ وطن ہمارا ہے،ہم ہیں پاسباں اس کے۔مگر "وہ"اگلے وزیرِ اعظم کے معاملے پر خاموش تھے۔میڈیا کو کچھ لیک کیا جاتا اور سیاسی لوگوں سے کہتے کہ چاند وہی چمکے گا جسے آپ چاہیں۔مگر کئی چاند تھے سرِ آسماں۔۔۔وہ چمک چمک کے پلٹ گئے۔یہ بیچارے ڈار کو لانے کے خواب دیکھتے رہے اور اب شاید خزانہ کے منصب پر بھی مرضی کا بندہ نہ آسکے۔ایک چھوٹی سی جھلک کہ اگر ڈار صاحب وزیر ِ اعظم بن جاتے تو کیا ہوتا۔مریم نواز روس کی شہزادی بن جاتیں جو PIAاور ریلوے کے ہر ٹکٹ پر لکھوا دیتیں"میاں دے نعرے وجن گے"۔ڈار تو نہیں آئے مگر سوشل میڈیا پر مریم صفدر کی ایک ویڈیو کلپ آ گئی۔اس میں ان کے ہاتھ میں کافی کا ایک مگ ہے۔ان کے مطابق اس میں کافی کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے کیونکہ اس مگ پر بڑے میاں کی تصویر ہے اور ایک جانب لکھا ہے"میاں دے نعرے وجن گے"۔مریم کے سامنے بونے اور بونیاںمسکرا رہے ہیں۔ ادب اور غلامی سے جھکے چلے جا رہے ہیں۔واہ واہ،آپ کا رعب جو دیکھا تو خُدا یاد آیا۔ایک شاعر کے مطابق ۔۔یوں نہ مل ہم سے خُدا ہو جیسے۔شہباز شریف۔۔شریف خاندان کا عاجز چہرہ ہے۔اُسے زمینی حقائق کا پتہ ہے۔وہ بڑے میاں کے ووٹ بینک کی روشنی میں چمکتا ہے۔چھوٹے میاں سے ایک میڈیا پنڈت نے سوال کیا۔۔اگر آپ کو اپنی ماں اور بھائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ؟شہباز شریف سوال کی اُٹھان جان گئے۔مُسکراکر طرح دے گئے۔ شہباز شریف کو فخر ہے کہ وہ کئی سالوں سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہے۔چھوٹی مریم صفائیاں دے دے ہف گئی کہ وہ یہ بات طنزیہ طور پر کہہ رہے تھے۔مگر میاں صاحب ٹھیک کہہ رہے تھے۔مشرف سے قمر باجوہ تک تاریخ یہی بتاتی ہے یہ الگ بات کہ" وڈے پا جی"کی محبت سڑک پار کرنے نہیں دیتی۔"اُن "کی آنکھ کا تارا ہیں تو درجنوں ایسے قوانین پاس کروائے کہ ایوان ۔۔ایوان نہ رہا۔۔۔جمہوریت ہمیں تیرا اعتبار نہ رہا۔