تمغۂ حسن کارکردگی حکومت پاکستان کی طرف سے ایک شہری اعزاز ہے، جو ادب فنون کھیل طب سائنس اور دیگر شعبوں میں عمدہ کارکردگی دکھانے والوں کو ہر سال یوم آزادی کے موقع پر دیا جاتا ہے اور یہ اعزاز صدر پاکستان ایک پروقار تقریب میں دیتے ہیں یہ سلسلہ 1958 سے شروع ہوا باقی شعبوں کا تو شور کم ہوتا ہے مگر گزشتہ چند سالوں سے ادیبوں اور شاعروں میں ایک لفاظی جنگ شروع ہو جاتی ہے آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ہر کسی کو اپنا اظہار خیال یا رائے دینے کی آزادی ہے 2017 میں خوب گرما گرمی ہوئی اور بات عدالت تک جا پہنچی لہذا ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں کوئی بھی ادیب یا شاعر شامل نہ تھا کراچی اور اسلام آباد ہائی کورٹس میں اس فہرست کو چیلنج کر دیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ من پسند اور سفارشی افراد شامل ہیں یہ فہرست کیبنٹ کمیٹی کے اجلاس میں مرتب ہوئی۔ پہلا تمغہ 1959 میں حفیظ جالندھری مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں ڈاکٹر شاہین الدولہ اور جسیم الدین کو دیا گیا، اس کے بعد انیس سو باسٹھ میں یہ ایوارڈ صوفی تبسم شاہد احمد بریلوی رئیس احمد جعفری عاشق حسین بٹالوی احمد ندیم قاسمی کو 1968 تک دیے جاتے رہے، روس میں آنے والے انقلاب نے ادیبوں اور شاعروں کو متحرک کیا اور یہ قیاس کیا گیا کہ قلم سے انقلاب لایا جا سکتا ہے، اس وقت تحریک پاکستان سے ملنے والی آزادی بڑی اہم تھی اس وقت اہل قلم کی اہمیت تلوار یا گولی سے کم نہ تھی مگر حقیقت میں ان کے قلم کو رہن رکھنے کے لیے پاکستان رائٹر گلڈ کی تشکیل کی گئی جس میں قدرت اللہ شہاب کا مرکزی کردار رہا ، آدم جی ایوارڈ بلا شبہ قدآور شاعروں اور ادیبوں کو دیا گیا ہے، 1969 میں جب یہ ایوارڈ دیے گئے تو اس کے روح رواں بھی قدرت اللہ شہاب ہی تھے، 1961ء سے لے کر 64 تک میر ارشد کریم محمد خالد اختر عبداللہ حسین شوکت عثمان میرزا ادیب کشور ناہید پروین شاکر نذیر قیصر احمد فراز شہزاد احمد امجد اسلام امجد مشتاق احمد یوسفی محمد اظہار الحق ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں شامل تھے، سابقہ دور میں اپ کو کافی حد تک شفافیت نظر آئے گی اس وقت مختلف نظریات دنیا میں گردش کر رہے تھے ازم کا دور بھی تھا مذہب کا بھی ترقی پسندی کا بھی جدت پسندی کا علیحدہ سے تھا ناصر کاظمی فیض احمد فیض مجید امجد حبیب جالب قتیل شفائی احمد فراز محسن نقوی جون ایلیا بڑے نامور نام گزرے ہیں طویل فہرست ہے انکی لاکھوں کتابیں چھپ چکی ہیں کئی ایڈیشن دیوان آج بھی پڑھنے والے پڑھ رہے ہیں، سوشل میڈیا پر آج بھی ان کا راج ہے ،میں اپنی طرف سے ایک عظیم شاعر کا ذکر کروں گا ،جو میری پوری زندگی پر قبضہ جمائے ہوئے ہے وہ ہیں مصطفی زیدی کیا نہیں لکھا انہوں نے آپ پڑھتے جائیں یوں محسوس ہوگا کہ لفظوں کی ایک قطار ہے جو ہاتھ باندھے چلی جا رہی ہے ایک الہام ہے وہ ایک بیوروکریٹ تھے ناگہانی موت کا شکار ہوئے اگر میں موجودہ دور کی شاعری یا شاعروں پر لکھوں تو ایک پنڈورا بکس کھل جائے گا سخت تنقید کی زد میں آؤں گا، میرے خیال میں حقیقی ادب لکھنے والے آج کل خاموش ہو گئے ہیں اور بدقسمتی سے ویسے بھی کتابوں کا دور گیا، صفحے کی لمس سے ہم محروم ہو گئے اصل محرومی تو یہ ہماری آنے والی نسلوں کی ہے کبھی سوچتا ہوں آج کل جو بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں وہاں داد واقعی سخن کی دی جا رہی ہوتی ہے اور وہ سخن اس قابل ہوتا ہے معذرت خواہ ہوں قاری جاہل ہے یا لکھنے والے معاشی ناہمواری تو بہترین لکھنے والے دریافت کرتی ہے اچھا کیا آج اگر 30 40 سال قبل کے شاعر ہوتے اور یہی ٹیکنالوجی کا دور اس وقت ہوتا تو وہ کیسا لکھتے کروڑوں قاری تو اس وقت ان کے تھے حکمران ان کا کلام پیش کرنا فخر سمجھتے لاجواب لکھنے والے بہترین پڑھنے والے پیدا کرتے ہیں،ہر جگہ سیاست بدقسمتی سے اس ایوارڈ کیساتھ 10 لاکھ کا چیک دیا جانا ہے اور بھی کچھ فوائد ہوں گے اب اس سے انکار ممکن ہی نہیں کہ اسے جانچنے کا طریقہ اور بعد ازاں فہرست اقربا پروری ظاہر کرتی ہے پھر ایسا کیوں نہیں کرتے کہ جو معترض ہیں، انہیں اگلے سال یہ ایوارڈ دے دیا جائے بس تخلص کے آگے صدارتی ایوارڈ یافتہ لکھنا درکار ہوتا ہے، آج جو حشر ہورہا ہے اس ایوارڈ کیساتھ پھر اسکی اہمیت کیا رہ جائے گی،آج ادب کے جو آخری شاہکار موجود ہیں افتخار عارف ظفر اقبال عباس تابش فرحت عباس شاہ انور مسعود جلیل عالی فیصل عظیم طاہر راجپوت اسلم شاہد دانش عزیز زبیر خالد ڈاکٹر مبارک علی عمران حیدر تھہیم اشرف شریف اعتبار ساجد ندیم بھابھہ اورنگزیب نیازی جمیل احمد عدیل توقیر احمد شریفی اور بھی بیشتر ہیں، معزرت خواہ ہوں کچھ نام رہنے پر ان سے گزارش ہے کہ خدارا ادب ہماری پہچان ہے زندگی کے آثار ہیں اسے بچائیں یہ آپکی ذمہ داری ہے، قوموں کی شناخت ادب شاعری اور لکھنے والوں سے ہوتی ہے یورپ کی ترقی کا راز ادب سے ہی ممکن ہوا، انکی پرنٹنگ پریس کی مشینوں کی آواز آج بھی گونجتی ہے اور ہمارے پرنٹنگ پریس ویسے ہی ختم ہوچکے ،اوپر سے قاری ایسے کلام پر بھی واہ واہ کررہا ہوتا ہے، جسے اگرچند سال قبل کے شعرا کرام سن لیں تو ہوش ہی کھو بیٹھیں کاش الحمرا اور پاک ٹی ہائوس کی حقیقی رونقیں بحال ہوں جہاں شاعروں کیساتھ ساتھ قاری بھی جائیں ۔