ہم کہاں کھڑے ہیں۔ بارڈرز کی تقسیم کے بعد دنیا کیسے سنبھلی کیسے کیسے حادثات سے گزری۔ کون سے فیصلوں نے انہیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا ۔ان کے حالات لیڈروں نے بدلے، نظام نے بدلے یا عوام نے خود کو تبدیل کر کے عزت کا مقام حاصل کیا۔ دنیا نے سب سے اہم ترین ترقی تعلیم اور شعور کے ذریعے حاصل کی اور ان کی دوسری کامیابی صحت کا شعبہ تھا اور شعور نے جھگڑے ختم کیے دشمنیاں ختم کیں۔ ترقی کے نئے ذرائع پیدا کیے۔ گائوں اور شہر کا فرق ختم کیا دن رات محنت کی جو پالیسی اپنائی ان پر سختی سے کاربند رہے۔ بھلے نقصان ہوا مگر نقائص ختم کیے اور ہمت نہ ہاری اور اب آجائیں اس خطے کی طرف ایک دعویٰ ہے کہ اولین انسان اسی خطے میں پایا گیا چلیں مان لیا درست نہ ہو مگر اس کے قدیم ترین ہونے پر کسی کو شبہ نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو حملہ آوروں کی آمد کی وجہ یہاں پر وسائل کی فراوانی تھی اس وجہ سے انہیں کسی اور جگہ حملہ آور ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک تو قدیم ترین دوسرے خوراک اجناس اور دیگر ذرائع میں خود کفالت بدقسمتی سے آثار قدیمہ نے جو دریافت کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں کے لوگ اشرفیہ کی پرستش کی لعنت میں مبتلا تھے۔ عرب کے بت پرست اور برصغیر کے بت پرستوں میں واضح فرق ہے عرب کے بت پرست اجداد کے بت بناتے تھے اور ان کی پرستش کرتے جبکہ برصغیرکی اشرافیہ کے آج بھی دیکھ لیں بالکل ویسا ہی ہے پرستش تو نہیں کرتے مگر ہماری تقدیر کے فیصلے انہیں کے ہاتھ میں ہیں۔ یورپ اولے پہلے آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے مگر آج بارڈر کے باوجود ایک مشترکہ کرنسی ہی نہیں بہت کچھ ان کا مشترک ہو چکا ہے جبکہ 76 سال ہوگئے انڈیا نے ہمارے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا ہم ہر وقت حالت جنگ میں رہے سازشوں میں رہے۔ بدقسمتی سے آج کے دن تک یکجہتی نام کی چیز ہمیں نصیب نہیں ہو سکی اگر ہم غور کریں تو ہم تقسیم در تقسیم سے گزر رہے ہیں۔ فرقہ بندی، برادری ازم علاقائی تقسیم ،لسانی تقسیم ہر طرف تفریق ہی تفریق ایک قوم کیسے بن سکتے تھے؟ یکجہتی کیسے نظر آتی میں اگر مذہبی گفتگو کروں گا تو میری گفتگو میں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ میرا رحجان کس مسلک کی طرف ہے اور اگر میں سیاست پر بات کروں تو میرے سیاسی رحجان کو مدنظر رکھا جائے گا بھلے میں ملکی مفاد کی ہی بات کروں۔ ہم کتنے فیصد ہیں جو شادیاں یا کاروبار چاروں صوبوں میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں حد تو یہ ہے کہ آج کے دن تک ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جانا ہی بڑا تکلیف دہ عمل ہے ایئرلائنز ریلوے اچھی نہ ٹرانسپورٹ ۔ آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں لوگ صبح کام کرنے کے لیے ایک ریاست میں جاتے ہیں اور شام کو دوسری ریاست میں اور اپنے گھر واپس آ جاتے ہیں اسی تیز رفتاری کے دور کی سروس نے لوگوں کے میل جول میں اضافہ کیا اور فرق ختم ہوا۔ بدقسمتی سے اگر آپ لاہور سے کراچی کوئٹہ پشاور کا پروگرام بنائیں گے تو سب سب سے زیادہ نہ جانے کے امکانات میں سفری خجل خواری ہو گی پوری کوشش کریں گے کہ مسلہ ٹیلی فون پر ہی حل ہو جائے یا جہاں دس آدمیوں نے جانا ہے وہاں ایک جائے گا تو کیسے ایک دوسرے سے راہ و رسم بڑھیں گے آج تو ایک شہر سے دوسرے شہر جانا بھی دشوار ہے۔ بے کار سڑکیں جو جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ گاڑیاں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ ہم تودوسرے مسلک سے راہ و رسم تک رکھنے کے بھی روادار نہیں کجا شادی بیاہ، اتنی نفرت آپس میں یہ لیڈر نہیں کرتے جتنی ان کے فالوورز کرتے ہیں۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر جائیں تو سر شرم سے جھک جاتے ہیں ایسا انداز گفتگو کہ توبہ ہے توبہ۔ اس تقسیم کا یہ لیڈران فائدہ اٹھاتے ہیں جو مرضی کہیں انہیں معلوم ہے ان کا دفاع کرنے والے جو موجود ہیں ۔اس طرح برادری ازم کا سب سے خوفناک پہلو بیجوڑ شادیاں ہیں جس سے کئی نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ ہمارا ویسے بھی مزاج ہے بس یوں ہی ڈاکٹر کے پاس جائیں گے یونہی ٹیکہ ڈرپ لگی اور یوں فوراً صحت یاب ہو جائیں گے مگر جب پورے جسم کی ٹیسٹ ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس کس خطرناک بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں اور پھر اس بیماری کا سن کر اس کے روگ میں چند ہفتوں میں ہی دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ بس ایک ہی امید پر جئے جا رہے ہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا ایک دم سے سب کچھ ٹھیک کر دے گا اور یوں ملک ایک دم سے پوری دنیا میں ایک مثال بن جائے گا یہی خواب تو لیڈران مفتیان اور موٹیویشنل سپیکر بیچتے ہیں۔ یہ بات درست ہے ہر علاقے کا کلچر رسوم و رواج، زبان اور لہجہ مختلف ہوتا ہے مگر آج تک ہم مرکزی زبان ہی رائج نہ کرسکے کاش انگلش کی جگہ عربی ہوجاتی کم ازکم دین تو سمجھ جاتے۔ برٹش ہمیں ایسی زبان دے گئے جو سمجھ کر صرف اشرافیہ کے ہی کام آتی ہے یا ایک مخصوص طبقہ ہی اسے سمجھ کر اچھی جگہ آسکتا ہے اب باقی عوام کیسے سمجھے: یہی لوگ ہیں ازل سے جو فریب دے رہے ہیں کبھی ڈال کر نقابیں، کبھی اوڑھ کر لبادہ (سرور بارہ بنکوی)