گزشتہ روز، جڑانوالہ میں قرآنِ پاک کو نذرِ آتش کرنے ، ادیان و مذاہب کے مُسلمات و مقدسات کی توہین ، مسیح برادری کی عبادت گاہوں کوجلانے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کے جو واقعات رونما ہوئے ، وہ از حد تکلیف دہ ، افسوسناک، ندامت اور شرمندگی کا باعث تھے ۔ مقامی پولیس اور ایڈ منسٹریشن نے، جب متعلقہ مسیحی نوجوانوں کے خلاف قرآنِ پاک کی بیحرمتی کے سنگین جرم کے ارتکاب پر ، توہین ِ مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا تھا، تو پھر مشتعل ہجوم اور مظاہرین کا قانون ہاتھ میں لے کر مسیحی برادری پر حملہ آور ہونا ، جلائو گھیرائو اور سب سے بڑھ کر ، اُن کی عبادت گاہوں اور گرجا گروں کو نذرِ آتش کرنا، بلا جواز اور قومی و بین الاقوامی سطح پر ملکی اورمِلّی بدنامی اور سُبکی باعث ہوا۔ قرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ کی شان ِ اقدس میں ہرزہ سرائی یقینا لائقِ تعزیزاور قابل ِ مذمت ہے ۔ اس پر قانون نے اپنا راستہ لینا تھا اور لے لیا ، لیکن اُس پر احتجاج کے ضمن میں جو سنگین مناظر اورخوفناک مظاہر دیکھے گئے ، وہ افسوسناک اور قابل مذمت ہیں،عالمی لیڈر شپ کو دینی مُسلمات اور مذہبی مقدسات کے احترام پر یکجا کرنے کی بجائے ، ہم اپنے طرزِ عمل سے خود ہی معتوب ہونے کے در پے کیوں ہیں؟ پنجاب گورنمنٹ نے بڑی حکمت اور دانشمندی سے اس نازک صورتحال کو سنبھالا۔ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے آفس میں مختلف مذاہب کی اعلیٰ قیادت اور مرکزی لیڈ رشپ سے بھی ملاقات کی، جس میں ندیم کامران بشپ آف لاہور ، سبسٹین فرانسز شاہ آرچ بشپ آف لاہور (رومن کیتھولک) ، امر ناتھ رندھاوا کرسچن راہنما، روہیا مفادی بِہائی راہنما، پاسٹر سمویل نواب، پادری میہنول کھوکھر، سردار کلیان سنگھ کلیان سکھ راہنما، پنڈت بگھت لال ہندو لیڈر،ڈاکٹر راغب حسین نعیمی چیئرمین متحدہ علماء بورڈ ، ڈاکٹر علامہ محمد حسین اکبرممبر اسلامی نظریاتی کونسل اورمولانا زبیر حسن جامعہ اشرفیہ بطور ِ خاص قابل ذکر ہیں۔ اس موقع پر بشپ آف لاہور نے مذاہب کے قائدین، پورے ایوان اور ہائو س کی طرف سے ایک ’’مشترکہ اعلامیہ‘‘ پیش کیا ، جو کہ یقینا وقت کی اہم ضرورت تھا ، اعلامیہ حسب ِ ذیل ہے ۔ i۔پاکستان کے قیام اور اس کے استحکام میں پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب اور اقلیتی راہنمائوں کا کردار ہماری تاریخ کاایک روشن باب ہے ۔ وطن عزیز کے معروضی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ تمام مذاہب اور ادیان کی لیڈر شپ اور دینی شخصیات قومی یکجہتی ، ملکی استحکام ،بین المذاہب مکالمہ اور مجموعی امن وامان کے لیے ہمیشہ کی طرح اپنا اساسی اور کلیدی کردار ادا کرتے رہیں ۔ ہم حکومت پنجاب کی وساطت سے پوری قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم دفاعِ وطن اور قومی وملی سلامتی کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ اورپوری قوم کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ومتفق ہیں۔ ii۔آج کا یہ اجلاس جڑانوالہ میں رونما ہونے والے دل خراش اور افسوسناک واقعا ت کی بھر پور مذمت کرتا ہے ۔ ہم قرآن پاک اور بائبل سمیت تمام کتب ِسماویہ کی عظمت کے امین ہیں ۔ قرآن پاک کی توہین کی جو جسارت ہوئی ، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں ، اس کے ساتھ چرچ کے نذرِ آتش ہونے اور اس میں بائبل کی توہین کی بھی مذمت کرتے ہیں ۔ ہم مساجد سمیت تمام ادیان اور مذاہب کی عبادت گاہوں کے تقدس اور حرمت کے بھی نگہبان اور پاسدارہیں ۔ جڑانوالہ میں مسیحی عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کرنا اور مسیحی برادری کی آبادیوں کا جلائو گھیرائو بھی قابل مذمت اور افسوناک ہے ۔ آج کا یہ اجلاس ، اس امر پر بھی متفق ہے کہ اس سانحہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم ہونا اور ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے ۔ 2۔یقینا وطنِ عزیز اس وقت اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔مشکل کی اس گھڑی میں ہم صبر، حوصلے اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، وطنِ عزیز کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنا کر، اسے مضبوط او ر مستحکم کرنے کا عزم کرتے ہیں ۔ خدائے بزرگ وبرتر سے دعا ہے کہ وہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کی حفاظت فرمائے اور تمام مذاہب کے درمیان اتحاد کو مضبوط کرنے کی ہماری ان کوششوں کو ثمر بار فرمائے۔(آمین ) اجلاس میں چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب نے بھی اس سانحہ کے حوالے سے حکومتی کار گزاری اور بروقت اقدامات ، جس سے حالات پر فوری قابو پانا ممکن ہوا، اجلاس میں پیش کیے ۔ مزید براں اس موقع پر دینی عمائدین کی طرف سے متاثر ہ مقامات کے دورے اور آج جمعہ کے خطبات میں بطور خاص بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کو موضوع ِ گفتگو بنانے پر بھی اتفاق ہوا۔ مذہبی انتہا پسندی محض کسی خاص خطّے یا علاقے تک محدود نہیں ، بلکہ یہ ایک عالمگیر مسئلہ بن چکا ہے ، جس کے تدار ک کے لیے تمام ادیان اور مذاہب کے پیشوایان اور راہنما حضرات کو مل بیٹھ کر سوچ بچار کرنے کی ضرورت اور اس پر ایک جامع حکمت عملی اور طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس ہوئی اور یقینا پنجاب گورنمنٹ اتنی استعداد اور صلاحیت کی حامل ہے کہ وہ یہ سب کچھ کر گزرے۔ یہ سوچتے اور لکھتے ہوئے از حد دل گرفتہ اور آزردہ بھی ہوں کہ یہ افسوسناک واقعہ جب بحضور رسالتمأب ﷺپیش کرتے ہوئے بیان کیا جائے گا کہ آپ ﷺ کے نام پر بننے والے ، اس خطّے میں آپ ﷺکی محبت ، وارفتگی اور دیوانگی میں ، آپ ﷺ کے کلمہ گوئوں نے ، ایک مسیحی برادری کی مختصر سی بستی، جس کو حضرت عیسیٰ ؑکے ماننے والوں نے "عیسیٰ نگری " سے موسوم ہے ، میں مسیحی عبادت گاہوں کو ملیا میٹ اور ان کے گھروں کو خاکستر کردیا ۔ توآپ ﷺ یقینا اشک بار ہوں گے۔آپؐ فرما رہے ہوں گے کہ کیا میری اُمّت بھول گئی کہ جب زمانہ ابتدائے اسلام یعنی بعثت کے پانچویں سال، حبشہ، جو کہ عیسائی ریاست تھی ،کے بادشاہ نجاشی کے پاس ، میری اُمّت کے مہا جرین کا اوّلین ڈیلی گیشن جو کہ12 مرد اور 4 عورتوں پر مشتمل تھا ، جس میں میری پیاری بیٹی رقیہ ؓ اور میر ے داماد عثمان ؓ بھی شامل تھے،جو ابراہیم اور لوط ؑکے بعد ، اللہ کی راہ میں ہجرت گزیں ہونے والی فیملی تھی ۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کے لیے مکہ کی سرزمین تنگ کردی گئی تھی ۔ وہ اپنی جان اور ایمان بچا تے پھر رہے تھے ۔ مشرکین ِ مکہ کا اعلیٰ سطحی وفد عمر و بن العاص کی قیادت میںحبشہ پہنچا، تو دربار میں سورہ ٔ مریم تلاوت ہوئی ، حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ حضر ت ِ مریم ؑ کی پاکیزگی اور پاکبازی کا تذکرہ حضرت جعفر طیار کے لحنِ پُر تاثیر سے سُن کر، نجاشی پر گریہ طاری ہوگیا ، اور اُس نے راہِ حق کے ان مسافر وں کو صرف تحفظ ہی نہیں ، احترام بھی فراہم کیا، انہیں صرف مذہبی ہی نہیں معاشرتی آزادی اور تحفظ بھی عطا کیا ۔ حضرت ابو قتادہ روایت کرتے ہیں کہ جب حبشہ سے نجاشی کی طرف سے ایک وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تھا ، تو نبی اکرمﷺ بنفس نفیس ان کی خاطر مدارت اور تواضع میں مصروف ہوگئے ۔ صحابہؓ نے عرض کی یارسول اللہﷺہم آپؐ کے غلام ان کی خاطر مدارت کے لیے حاضر ہیں ۔ آپؐ کیوں زحمت فرماتے ہیں ۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا : "میرے صحابہ جب وہاں گئے تو ان لوگوں نے ان کی بڑی عزت کی ۔ اب میں چاہتاہوں کہ میں ان کی خود خاطرمدارت کر کے ان کو صلہ دوں "