بھارت میں گروپ 20 کا اجلاس ہونے جا رہا ہے۔بھارت کے پاس 2023 کے لیے G20 کی صدارت ہے۔اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سربراہی اجلاس/سیشنز/ٹریک منعقد کرے گا ۔اس بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔یہ قراردادیں بھارتی ہٹ دھرمی کے باوجود قابل اطلاق رہتی ہیں۔ ایسے علاقے میں گروپ کا سربراہی یا ذیلی اجلاس علاقے کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔G20 1999 میں قائم ہوا، یہ ایک بین الحکومتی فورم ہے جس میں انیس ممالک اور یورپی یونین شامل ہیں۔ یہ عالمی معیشت سے متعلق اہم مسائل جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی استحکام، موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور پائیدار ترقی کو زیر غور لاتا ہے۔ یہ عالمی اقتصادیات اور مالیاتی ایجنڈے کے اہم ترین مسائل پر بین الاقوامی تعاون کا سب سے بڑا فورم ہے۔ G20 کے مقاصد اس کے اراکین کے درمیان پالیسی کوآرڈینیشن کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ مقاصد عالمی اقتصادی استحکام اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے تعاون ، مالیاتی ضوابط کو فروغ دینیاور خطرات کو کم کرنا ، مستقبل کے مالیاتی بحرانوں کو روکنا اور مالیاتی ڈھانچے کو جدید بنانا جیسے ہیں۔ طاقتور G20 مجموعی عالمی پیداوار کا 80-90 فیصد، بین الاقوامی تجارت کا 75 فیصد، عالمی آبادی کا 66 فیصد اور دنیا کے زمینی رقبے کا 60 فیصد ہے۔ دنیا میں تمام ایندھن کے اخراج کا 84 فیصد ذمہ دار یہی گروپ ہے۔ . یہ کوئی مستقل ادارہ نہیں ہے جس میں دفاتر یا عملہ ہو۔ اس کے بجائے اس کی سربراہی اراکین کے درمیان سالانہ بنیادوں پر بدلتی رہتی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں G20 سربراہی اجلاس/سیشن/ٹریک منعقد کرنے کی کوشش کرکے بھارت چالاکی سے ایک تیر سے کئی پرندوں کو شکار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی فاشسٹ، ہندوتوا کی جنونی بی جے پی حکومت اپنے دور میں مخصوص جغرافیائی اور داخلی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے G20 کا استحصال کرنے پر بضد دکھائی دیتی ہے۔ بظاہر اس اجلاس کا مقصد پوری دنیا، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل ، جی 20، چین، پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کے لیے ایک مخالفانہ حربے کے طور پر کام کرنا ہے۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے زیرانتظام متنازع علاقے پر اپنے تسلط کا اعلان کرنے کے لیے بالواسطہ طریقہ اختیار کر رہا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں بھارت نسل کشی پر مبنی مظالم، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی خلاف ورزی پر اپنے اوپر آنے والے دبائو کو کم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگست دو ہزار انیس میں مودی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر دیا، ان شقوں نے کشمیری مسلمانوں کو خصوصی حقوق دیے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں G20 سربراہی اجلاس کے انعقاد سے بھارت کو امید ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اس علاقے کواپنے اٹوٹ انگ کے طور پر پیش کرسکے گا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میںجی ٹونٹی سربراہی اجلاس منعقد کرلیتا ہے تو اسے ایک طرح کی بین الاقوامی منظوری کے طور پر دیکھا جائے گا کہ کشمیر بھارتی علاقہ ہے۔ مضمرات کے ضمن میں جی 20 کو پاکستان کے آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان پر بھی بھارتی دعووں کی تصدیق کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہمقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے دعوے اب درست قابل عمل نہیں ہیں۔ یہ کانفرنس اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں، بین الاقوامی کنونشنوں اور دو طرفہ معاہدوں کی براہ راست خلاف ورزی ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا تو بی جے پی کی عیار حکومت نے جی 20 کو جموں و کشمیر کے تنازعہ میں ایک فریق بنانے کے لیے منصوبہ تیار کیا ہے۔ اگر G20 مقبوضہ کشمیر میں قدم رکھتا ہے تو پاکستان اسے ایک امتیازی اور بھارت نواز کارروائی کے طور پر دیکھنے پر مجبور ہو گا۔ جی ٹونٹی کے سربراہی اجلاس کو چین ایک غیر دوستانہ سرگرمی تصور کرے گا ۔چین ایل اے سی کے ساتھ اور خاص طور پر لداخ میں بھارت کے ساتھ دیرینہ سرحدی تنازعہ میں فریق ہے۔ ایک فورم کے طور پر G20 پر اس کے اثرات الگ ہوں گے۔ کشمیری مسلمان اسے معاشی طور پر طاقتور ممالک کا ایسا گروپ تصور کریں گے جو ان کی آزادی اور خود مختاری کے دشمنوں کا اتحادی بن رہا ہے ۔ ظالم کا ساتھ دے رہا ہے اور شیطانی، جابرانہ، نسل کشی پر مبنی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔ گروپ ٹونٹی کی صدارت کے غیر منصفانہ استعمال اور بھارت کی جانب سے ناجائز جغرافیائی سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے تنظیم کا کندھا استعمال کرنا امن کے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی تصور ہو گی۔گروپ کو اپنے رسمی مقاصد اور ایجنڈے پر سختی سے عمل کرنے، انصاف کی راہ پر گامزن رہنے، منصفانہ سرگرمیوں اور تسلیم شدہ عالمی تنازعات کی حساسیت کا خیال رکھنا ہو گا ۔ جی ٹونٹی کو بطور گروپ اجتماعی اور انفرادی سطح پر ایک مستعد پالیسی اپنانی چاہیے۔ اسے اپنے طے شدہ مقصد کو پیش نظر رکھ کر کقبوضہ کشمیر کے تنازع سے دور رہنا چاہیے۔ اسے دنیا میں دیگر کچلے ہوئے لوگوں اور کشمیر کے مظلوموں کے لیے غیر منصفانہ مثالیں قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے! G20 کو اجتماعی اور انفرادی طور پر جان بوجھ کر ایسے واضح بھارتی جال میں پھنسنے کے سنگین اثرات کا ادراک ہونا چاہیے۔بھارت اس اجلاس کو معاشی اور سماجی ترقی کی بجائے جنگی مقاصد کے لئے استعمال کر نا چاہتا ہے جس سے G20 کی اپنی ساکھ، غیر جانبداری، انصاف پسندی اور بین الاقوامی اصولوں اور معاہدوں کی پاسداری خطرے میں ہے۔ ٭٭٭٭٭