آج 19 مئی جناب خورشید رضوی کا یوم پیدائش ہے۔ سیاست کے ہنگام کو نظر انداز کرتے ہوئے شعر وادب کی نادر و نایاب شخصیت کو سالگرہ مبارک کہتے ہیں۔ اور اس نعمت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے عہد کو میسر ہیں۔ مجھے خبر نہیں تھی کہ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں موجود نہیں، میں تو ان سے ملاقات کا ایک پروگرام بنا رہی تھی۔ خورشید رضوی صاحب ان دنوں اپنے بیٹے کے پاس انگلینڈ میں ہیں۔ فون کیا تو ڈاکٹر صاحب نے پہلی بات ہی ملک کے بدترین سیاسی حالات پر کی اور کہا کہ ملک کے حالات پر دل بہت رنجیدہ ہے اتفاق ہے کہ میں فجر کے وقت نو مئی ہی کو پاکستان سے انگلینڈ کے لیے روانہ ہوا تھا اس وقت مجھے خبر نہیں تھی کہ صورت اتنی بگڑ چکی ہے یہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں بار بار دل اسی طرف جاتا ہے۔اللہ ہمارے ملک پر مہربانی فرمائے ۔ ڈاکٹر صاحب جہاں تک مجھے یاد ہے آپ خبر اور اخبار سے دور رہتے ہیں اور شاید آپ نے اخبار بھی گھر پر نہیں لگوایا کہ علمی اور تحقیقی کاموں میں خلل پڑتا ہے میں نے استفسار کیا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی مسکرائے اور بولے جی ایسا ہی ہے عجیب بات یہ ہے کہ میں پاکستان میں ہوتا ہوں تو خبروں میں اتنی دلچسپی نہیں لیتا لیکن جونہی وطن سے باہر آتا ہوں تو پھر یہ تجسس رہتا ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور بس یہی اس بار ہوا اور دل بہت پریشان ہے انہوں نے بار بار پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر اپنی پریشانی اور اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ اس وقت یہ سوچ رہی تھی کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے عربی زبان کے نادرو نایاب عالم ،محقق اور کثیر الجہتی تخلیق کار ہمارے درمیان موجود ہیں مگر ہمارے مین سٹریم میڈیا کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ ان جیسے اہل علم سے بھی کبھی پرائم ٹائم میں سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں مکالمہ رکھا جائے۔ ایسے اہل علم سے مکالمہ بدتہذیبی اور اخلاقی گراوٹ کے اس بنجر موسم میں سننے والوں کی بھی تہذیب و تربیت کرے گا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے مین سٹریم میڈیا کے مسائل اور ہیں ان کے مفاد اور ہیں ان کے ایجنڈے بالکل مختلف ہیں اور اس ماحول میں ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے اہل علم ایک اجنبی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ خاص طور پر میں ان کی سالگرہ کے حوالے سے بات کی تو کہنے لگے کہ میں کبھی سالگرہ کا اہتمام نہیں کرتا مجھے تو یاد بھی نہیں رہتی ہاں بچے اس کا کچھ اہتمام کرتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی بچوں کے لیے انگریزی زبان میں سیرت پر لکھی ہوئی کتاب شائع ہوئی ہے۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ برطانیہ میں مقیم ان کے بارہ تیرہ سال کے پوتے نے سیرت رسول ﷺ پر کتاب پڑھنے کا کہا تھا اس پر انہوں نے کچھ کتابیں بچے کو تجویز کیں لیکن وہ خود مطمئن نہ ہوئے اور پھر انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ وہ خود اس عمر کے انگریزی سمجھنے والے بچوں کے لیے سیرت کی کتاب لکھیں۔لکھنے کا محرک یہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ وہ لندن شہر کے مضافات کے علاقے میں رہتے ہیں۔ یہ پرسکون علاقہ ہے۔ مصروفیات یہاں میرے اپنے کاموں کے حوالے سے رہتی میں یہاں اپنا پڑھنے لکھنے کا کام لے آتا ہوں موسم اچھا ہے تو توجہ سے کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہمارے شاعر ادیب تو بیرون ملک مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں آپ کیسے گریز کرتے ہیں ؟ مزاج تو میرا شروع سے ہی مجلسی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں تو کہیں نہ کہیں جانا پڑجاتا ہے اور ملاقاتوں کا کچھ نہ کچھ سلسلہ بھی جاری رہتا ہے یہاں آکر میں خود تو کسی کو مطلع نہیں کرتا لیکن کچھ دوستوں کو معلوم ہوتا ہے تو وہ ملنے بھی آ جاتے ہیں۔ آپ سیر و تفریح بھی کرتے یا نہیں ؟ سیر و تفریح پہلے لندن میں بہت کی اور خاص طور پر ادبی مقامات وغیرہ کی جیسے لیک ڈسٹرکٹ میں بہت شوق سے گیا لیکن اب سیروتفریح نہیں کرتا بس گھر پر رہتا ہوں واک کرتا ہوں۔ سالگرہ کیسے مناتے ہیں اپنی سالگرہ کے دن آپ پاس ہوتے ہیں سوچتے ہیں مطلب کیا کیفیت ہوتی ہے۔ مجھے تو اپنی سالگرہ کا دن یاد ہی نہیں رہتا۔دوستوں اور بچوں کے یاد دلانے پر یاد آتا ہے۔ بچے تحفہ بھی دیتے ہیں جسے پچھلی سالگرہ پر میرے بیٹے نے مجھے لیپ ٹاپ لا دیا۔ لیپ ٹاپ کو لکھنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں؟ لکھتا تو میں کاغذ اور قلم سے ہی ہوں لیکن بس لیپ ٹاپ میرے تحقیقی کاموں میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ بطور تخلیق کار ان کا تخلیقی سفر جاری و ساری ہے۔ ان کا تازہ ترین تخلیقی کام قصیدہ بردہ شریف کے ایک سو ساٹھ اشعار کو آزاد نظم کی صورت دینا ہے۔آج کل ایسی تخلیقی کام میں مصروف رہتے ہیں۔ 19 مئی 1942ء کو امروہہ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر خورشید رضوی آج اپنی اکیاوسویں سالگرہ منارہے ہیں۔بطور تحفہ انہی کے چند اشعار ان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ تم کو میری افتاد کا اندازہ نہیں ہے تنہائی صلہ ہے مرا خمیازہ نہیں ہے مدھم ہے نوا میری کسی اور سبب سے یہ بات نہیں کہ غم تازہ نہیں ہے۔ افسردگئی طبع تجھے مان گئے ہم ہم جان سے جاتے ہیں مگر تو نہیں جاتی ظاہر پہ مسرت کا چھڑکتے ہیں بہت عطر باطن سے اداسی کی مگر بونہیں جاتی پیش آئینہ لبھاتا ہے بڑھاپے کا وقار ہم نہیں کہتے کہ افسوس جوانی افسوس صبح ہوتے ہمیں دیکھا تو بھلا کیا دیکھا اب کہاں آخر شب کی وہ روانی افسوس!