کئی دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ میں چھائے جنگ کے بادل فلسطین کو لہو لہو کر رہے ہیں۔ 17 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کے بعد ابھی تک یہ جنگ رْکتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ اس جنگ میں سب سے بھاری قیمت عام شہریوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ فلسطینی تو طیل عرصہ سے ایک بے خانماں قوم بن چکے ہیں۔ یہ لڑائی تو وہ اب خود ہی لڑ رہے ہیں کیونکہ وہ کسی کی بھی ترجیح نہیں ہیں۔ وہ ناامیدیوں کے سایے میں بھی اْمید نہیں ہارے۔ خستہ حال ٹوٹے اور جلے ہوئے درو دیوار بھی ان کے حوصلوں کو پسپا نہیں کر سکے۔ کس کس بات کا ماتم کریں؟ اسرائیل اگر سمجھتا ہے کہ ظلم کی کوکھ سے سلامتی اور امن جنم لے گا تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ مگر کیا کیا جائے اس عالمی ضمیر کا جو ابھی تک سو رہا ہے۔ غزہ کے ہسپتال میں اسرائیلی بمباری ہوئی ہے جہاں بچوں سمیت 800 لوگ شہید ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹرز سمیت پورا طبی عملہ اور پناہ گزین نشانہ بنے۔ جنگوں کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں ،عورتوں اور معصوم بچوں پر حملہ ایک بہت بڑا سنگین جرم ہے جس کا سرائیل مسلسل ارتکاب کر رہا ہے۔ ایسے ہی سنگین جرم و ستم کی داستان کو لکھنے والی ایک فلسطینی شاعرہ فدویٰ طوقان کا ذکر آج میں اپنے کالم میں کر رہی ہوں۔ فدویٰ طوقان کا نام فلسطین اور عرب قومیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ فلسطینی عرب بچے فدویٰ طوقان کو ایک ایسی دلیر عورت کے طور پر جانتے تھے جو اپنی شاعری کے ذریعے برطانوی اور اسرائیلی امپیریل ازم کے خلاف لوگوں سے بات چیت کرتی تھی۔ فدویٰ نابلس کے ایک قدامت پسند مگر ادبی گھرانے میں پیدا ہوئی۔ اس نے اوکسفرڈ سے انگریزی ادب پڑھا اور اپنی شاعری کے حوالے سے بہت سے ادبی اعزازات جیتے۔ اسے ’’فلسطین کی شاعرہ‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ وہ 1917 کو پیدا ہوئیں اور 2003 میں اس جہانِ فانی سے کْوچ کر گئیں۔ وہ اْردن کے سابق وزیرِ اعظم احمد طوقان کی بہن تھیں۔ ان کے ایک اور بھائی ابراہیم طوقان بھی شاعر تھے۔ ابراہیم طوقان نے اپنی بہن کے اندر چْھپے ہوئے ادبی جذبے کو پہچان کر اسے نکھارنے میں مدد کی۔ ان کی شاعری اسرائیلی زیرِ تسلط لوگوں کی تکالیف پر مبنی تھی۔ اوکسفرڈ میں انگریزی ادب نے ان کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا۔ 1967 کی جنگ نے انہیں نابلس جو اس وقت اسرائیل کے قبضے میں تھا ،کی پبلک لائف کی طرف موڑا۔ اس بربادی نے ان کی شاعری کو ذاتی رنگ سے نکال کر مزاحمتی شاعری کی طرف راغب کر دیا۔ فدویٰ کی شاعری میں زندگی، موت، فطرت، کْنبہ اور معاشرتی جبر کا ذکر کْھلم کْھلا ملتا ہے۔ ان کی دو جلدوں پر مشتمل آپ بیتی میں ان کی ذاتی زندگی اور سماجی اور سیاسی زندگی اور وہاں کے رہائشیوں کے رسم و رواج کا ذکر ہے۔بہت سی غلط رسم و رواج جو علم و بصیرت کی راہ میں رکاوٹ تھے ،فدویٰ نے ان کے خلاف بھی قلم اٹھایا۔ وہ فلسطینی جو دہائیوں سے وہاں اپنے سیاسی و ثقافتی رواجوں کے ساتھ رہ رہے تھے ،ان کے حق میں بے باک شاعری کی۔ 1977 میں جب نابلس میں النجف یونیورسٹی قائم ہوئی تو وہ وہاں کی بورڈ آف ٹرسٹیز کی رکن بنیں۔ انہوں نے یونیورسٹی کا ترانہ لکھا۔ 1952 سے لے کر 2000 تک فدویٰ طوفان کی شاعری کے آٹھ مجموعے شائع ہوئے۔ فلسطینی ناول نگار لی اینا بدر نے ان کی زندگی پر ڈاکو منٹری فلم بھی بنائی۔ 85 سال کی عمر میں 2003 میں دسمبر کے ایک یخ بستہ دن کو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں اور نابلس میں ہی مدفون ہیں۔ ان کی موت کا اعلان کچھ یوں تھا: ’’ہم فلسطین کی عظیم شاعرہ ایک سچی اور انوکھی با صلاحیت شخصیت، نابلس کی بیٹی، انصاف کی شمع، استاذہ، ثقافتی مجسمہ، غیر معمولی ادبی شخصیت، فلسطین کا اعزاز جیتے والی عورت کی وفات کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘ قدرت کے نوازے گئے کتنے ہی ایسے لوگ ہوتے ہین جو ایک زندگی میں کئی زندگیاں جی جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب صرف مرد شاعری پڑھا اور کیا کرتے تھے۔ فدویٰ نے پدر سری نظام کو للکارا۔ اپنے اور اپنے خاندان اور فلسطین پر ڈھائے گئے مظالم کو دنیا کے سامنے آشکار کیا۔ فدویٰ کا بچپن تلخیوں میں گزرا۔ وہ لکھتی ہے کہ اس کی اپنی ماں اسے پہلی اولاد کے روپ میں دل سے قبول نہ کر سکی کہ بیٹی تھی۔ مجھے فدویٰ طوقان پر بہت کچھ لکھنا ہے۔ فی الحال اس وقت قارئین کی نذر ان کی ایک نظم کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ میری بہن، میری سرزمین کا دل پھڑکتا ہے۔۔۔ یہ دھڑکنا بند نہیں کرتا مگر یہ برداشت کرتی ہے نا قابلِ برداشت چیزوں کو بھی یہ سینے میں راز رکھتی ہے۔۔۔ پہاڑیوں اور ماؤں کی بچہ دانیوں کے اس سرزمین میں نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں نو کیلی کھجوروں کے پتے بھی سرزمین ہیں یہ بھی آزادی کے متوالوں کو جنم دیتے ہیں یہ زمین، میری بہن، بھی تو ایک عورت ہے اس نظم میں وہ اپنی سرزمین فلسطین کا ایک عورت سے موازنہ کرتی ہیں۔ خون ریزی، زخم اور بربادی یہاں کے لوگوں کا مقدر بنا دی جاتی ہے۔ مگر وہ کہتی ہیں کہ یہ زمین ایسی زرخیز ہے جو آزادی کے جنگجو جنتی رہے گی۔ آزادی کے دیوانوں کو پروان بھی چڑھاتی رہے گی۔ کیا ہوا اگر اس زمین نے ماتمی لباس پہن لیا ہے۔ کیا ہوا دنیا پر امن قائم کرنے کو اگر نہتے لوگ مارے جائیں۔ کیا فرق پڑتا ہے چند لاکھ بچے اور عورتیں اپنے گھروں سے بے گھر ہو کر مر جائیں۔طاقتور اس پر قانع ہیں۔ اسرائیل اس وقت غزہ کو اجتمائی سزائیں دے رہا ہے۔ کہاں ہیں وہ ساری انسانی حقوق کے علمبرداد تنظیمیں؟ غزہ کے شمال سے 11لاکھ سے زائد لوگ غزہ کے جنوب کی طرف نکلے تو ظالموں نے ان کے قافلوں پر بھی فضائی بمباری کی۔ مگر فلسطین کی زمین فدویٰ کی بہن آزادی کے متوالے جنتی رہے گی۔ ایسے گلاب اْگائے گی جن کی نرم پتیاں زخموں کا مرہم بنیں گی۔ ٭٭٭٭٭